بیجنگ (مانیٹرنگ ڈیسک) چین کے وزیر خارجہ نے گذشتہ روز ایک مرتبہ پھر بھارت سے کہا ہے کہ وہ چینی علاقے سے اپنی فوج اورجنگی سازوسامان واپس بلا لے ۔یہ بات انہوں نے ایسے موقع پر کہی ہے جبکہ ڈونگ لانگ (ڈوکلم ) کے علاقے میں سرحدی تنازعہ دوسرے ماہ میں داخل ہو گیا ہے ،18جون کو 270سے زیادہ مسلح بھارتی فوجیوں نے دو بلڈوزروں کے ہمراہ سکم سیکٹر میں سرحد کو پار کیا او ر 100میٹر سے زائد تک
چین میں پیشقدمی کی ۔جولائی کے اواخر تک چینی علاقے میں اب بھی چالیس سے زائد بھارتی فوجی اور ایک بلڈوزر موجود ہے ، ڈونگ لانگ علاقے کی سرحد مغرب میں بھارتی ریاست سکم اورجنوب میں بھوٹان کی مملکت سے ملتی ہے ،بعض مغربی اطلاعات میں ڈونگ لانگ کو متنازعہ علاقہ قراردیا گیا ہے جو کہ بے بنیاد ہے ، 1890ءمیں چین اور برطانیہ نے سکم اور تبت سے متعلق برطانیہ اور چین کے درمیان ایک کنونشن پر دستخط کئے جس میں چین سکم کے تبت کے علاقے کے درمیان سرحد کی حد بندی کی گئی ہے ۔اس کنونشن کے مطابق ڈونگ لانگ چین کا علاقہ ہے ، چینی فوجی علاقے میں گشت کرتے ہیں اور چینی چرواہے وہاں اپنے مویشیوں کو گھاس پھوس کھلاتے ہیں ،1959ءمیں بھارت کے آنجہانی وزیراعظم جواہر لال نہر و کی طرف سے چینی وزیر اعظم آنجہانی فیواین لائی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ 1890ءکے کنونشن میں سکم اور تبت کے درمیان سرحد کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور سرحد کی بعد ازاں 1895ءمیں دوبارہ حد بند ی کی گئی۔اس لئے اب تبت کے علاقے کے ساتھ سکم کی سرحد کے بارے میں کوئی تنازعہ نہیں ہے ، چین اپنے علاقے میں سڑکیں تعمیر کررہا ہے ا س نے سرحد کو پار نہیں کیا اور بھارت کو پیشگی مطلع کیا ہے ، بھارت نے اس وقت تک کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا تا وقتیکہ اس کی فوجیں ڈونگ لانگ پر حملہ آور ہو گئیں۔
چین کے ادارہ بین الاقوامی مطالعہ کے لائی چنگ یان نے کہا کہ بھارت نے جان بوجھ کر یہ بحران پیدا کیا ہے تا کہ چین کو آزمایا جا سکے ، چین کی باٹم لائن بارڈر لائن ہے جیسا کہ بھارت کے ساتھ 1962ءکے واقعہ میں دکھایاگیا ہے۔چین معقولہ کے مطابق ایک اچھا ہمسائیہ ایک دور افتادہ بھائی سے بہتر ہے ، چین بلاشبہ ہمسائے کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا ، چین اور بھارت دو ترقی یافتہ بڑے ممالک ہیں جن کے درمیان مشترکہ مفادات
کی کافی حد ہے ،معقول دوطرفہ تعلقات یقینا دوبلین عوام کیلئے سود مند ثابت ہونگے تا ہم چینی عوام خود مختاری کے دفاع میں ہرگز پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے او ر کسی بھی ملک کو چینی عزم کے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے ۔