اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مورخہ 17جون 2014 کو تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن نشتر ٹاﺅن لاہور اور پولیس نے ادارہ منہاج القرآن اور چیئرمین عوامی تحریک پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے ارد گرد ناجائز تجاوزات ہٹانے کیلئے کارروائی کی جس کے دوران شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہوا اس وقوعہ کا مقدمہ انسپکٹر رضوان قادر ایس ایچ او تھانہ فیصل ٹاﺅن کی مدعیت میں مورخہ 17 جون 2014ءکو تعزیرات پاکستان کی دفعات 302, 34, 324, 290, 291, 353, 148, 149, 186 اور 7-ATA کے تحت درج کیا گیا۔
وقوعہ کے دوران 28 پولیس ملازمین شدید زخمی ہوئے جن میں سے دو کو آتشیں اسلحہ سے زخمی ہوئے جبکہ ایک پولیس ملازم محمد شریف اے ایس آئی کو ادارے کے کارکنان نے اغواءکر کے شدید زخمی کیا۔ اے آئی جی ڈاکٹر عارف مشتاق کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بشمول ممبران آئی ایس آئی اور آئی بی نے مقدمہ کی تفتیش کی جس کے دوران ادارہ منہاج القرآن کے ملازمین و ممبران کو شامل تفتیش ہونے کے لئے کئی بار طلب کیا گیا لیکن وہ شامل تفتیش نہ ہوئے۔ دوران تفتیش 9 پولیس ملازمین اور 42 ملزمان ادارہ منہاج القرآن گنہگار پائے گئے۔ 28 اگست 2014ءکو چالان عدالت میں پیش کیا گیا مورخہ 20 اکتوبر 2015ءکو فرد جرم عائد ہوئی۔ پراسیکیوشن نے 40 گواہان کی شہادت قلمبند کروائی اس دوران ملزمان التواءحاصل کرتے رہے۔ تاحال 9 چشم دید گواہان پر جرح منجانب کونسل ادارہ منہاج القرآن نہ کی گئی ہے اس وجہ سے مقدمہ کی آگے نہ بڑھ سکی۔ مقدمہ نمبر 696/14 تھانہ فیصل ٹاﺅن برخلاف سرکاری عہدیداران مورخہ 28 اگست 2014 ءکو ڈائریکٹر ایڈمن محمد جواد حامد ادارہ منہاج القرآن کی مدعیت میں درج رجسٹر ہوا۔ مقدمہ ہذا میں 24 ملزمان نامزد ہوئے۔ ڈی آئی جی عبدالرزاق چیمہ کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بشمول ممبران آئی ایس آئی اور آئی بی نے مقدمہ کی تفتیش کی۔ مستغیث مقدمہ شامل تفتیش نہ ہوا۔ بمطابق تفتیش 10اشخاص مقتول جبکہ 54مضروب ہوئے۔ بعد تفتیش 6 پولیس ملازمین اور 42 پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز گنہگار پائے گئے اور چالان کئے گئے۔
مورخہ 19 دسمبر 2014 کو فرد جرم عائد ہوئی اور اس میں 21 گواہان کی شہادتیں قلمبند ہوئیں۔ مورخہ 15 مارچ 2016ءکو مستغیث جواد حامد نے ایک سال نو ماہ کی تاخیر سے عدالت میں ڈائریکٹ کمپلینٹ 139 افراد کیخلاف دائر کی۔ نورالٰہی کیس کی روشنی میں عدالت نے چالان پر کارروائی روک دی اور کمپلینٹ پر کارروائی شروع کر دی۔ 139 ملزمان میں سے ملزمان ایک تا بارہ جن میں سابق وزیراعظم پاکستان اور موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب شامل تھے کو عدالت نے بے گناہ سمجھتے ہوئے طلب نہ کرنے کاحکم صادر فرمایا۔
جب کہ دیگر ملزمان جن میں اس وقت کے آئی جی پولیس شامل ہیں کو طلب فرمایا اور وہ عدالت میں مقدمہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ مورخہ 08 نومبر 2016ء(قریباً آٹھ ماہ) مستغیث نے استغاثہ میں 57 سرسری گواہان کی شہادت قلمبند کروائی۔ بعدازاں مقدمہ کو التواءمیں ڈالنے کے لئے مستغیث نے درخواست زیر دفعہ 94 ضابطہ فوجداری برائے طلبی رپورٹ جوڈیشل کمیشن کورٹ میں دائر کی جو کہ خارج ہوئی جس کیخلاف مستغیث جواد حامد / ادارہ منہاج القرآن نے رٹ پٹیشن عدالت عالیہ لاہور ہائیکورٹ میں
دائر کی جو مورخہ 15 دسمبر 2016ءکو خارج ہوئی۔ مقدمہ نمبر 696/14 جو کہ محمد جواد حامد مستغیث کی مدعیت میں درج رجسٹر ہوا میں 24 ملزمان نامزد تھے جبکہ کمپلینٹ میں محمد جواد حامد نے 139 ملزمان نامزد کئے۔ اب تک استغاثہ میں کل 92 پیشیاں مقرر ہوئیں جن میں سے 47 پیشیوں پر مستغیث/ادارہ منہاج القرآن کے گواہ پیش نہ ہوئے اور کارروائی استغاثہ اس بناءپر ملتوی ہوئی۔ اس طرح استغاثہ میں تاخیر کی تمام تر ذمہ داری مستغیث /ادارہ منہاج القرآن پر عائد ہوتی ہے۔