پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

آئی ایس آئی کا نمائندہ کون تھا؟وزیراعظم نوازشریف کے اعتراضات کی تفصیلات سامنے آگئیں

datetime 17  جولائی  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی)وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراض میں کہا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے ادارے میں حاضر سروس افسر نہیں تھا ٗ واجد ضیاء نے برطانیہ میں تحقیقات کیلئے اپنے کزن اخترراجہ کی فرم کی خدمات حاصل کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ٗ جے آئی ٹی رپورٹ شکوک و شبہات ٗمفروضوں پر مشتمل ہے ٗ وزیر اعظم کو عوام کی نگاہ میں بدنام کرنے کی کوشش ہے ٗغیر جانبدار تحقیقات کے بغیر فیئر ٹرائل نہیں ہو سکتا ٗ

جے آئی ٹی کے حاصل کئے گئے شواہد قانون کے مطابق قابل قبول نہیں اور فائنڈنگز کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ٗ جلد نمبر 10 فراہم نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ٗ کیس چلانے سے پہلے جلد نمبر دس فراہم کی جائے ٗنامکمل رپورٹ کے باعث مدعا علیہان کیخلاف آرڈر پاس نہیں کیا جاسکتالہذا غیر شفاف تحقیقات کو کالعدم قرار دیاجائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر نو صفحوں پر مشتمل اپنے اعتراضات جمع کرائے جن میں استدعا کی گئی کہ زمینی حقائق مدنظر رکھتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا جائے۔ وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا ء پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برطانیہ میں تحقیقات کے لیے اپنے کزن اختر راجہ کی فرم ’’کوسٹ ‘‘ کی خدمات حاصل کرکے قانون کی خلاف ورزی کی، لاء فرم کو بھاری رقوم دی گئیں جو قومی خزانہ کو بھاری نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔وزیراعظم نے جے آئی ٹی میں شامل انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نمائندے پر اعتراض اٹھایا اور موقف اختیار کیا کہ تشکیل کے وقت آئی ایس آئی کا نمائندہ اپنے ادارے میں حاضر سروس افسر نہیں تھا۔اعتراضات میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے نمائندہ کا بطور سورس تعیناتی کا انکشاف ہوا ہے اور سورس ملازم کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی جبکہ سرکاری دستاویزات میں نمائندے کی تنخواہ کا بھی ذکر نہیں۔

وزیر اعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ شریف فیملی کے خلاف غیر تصدیق شدہ دستاویزات اور زبانی معلومات پر نتائج اخذ کئے گئے ٗ جے آئی ٹی رپورٹ شکوک و شبہات، مفروضوں پر مشتمل ہے اور وزیر اعظم کو عوام کی نگاہ میں بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ غیر جانبدار تحقیقات کے بغیر فیئر ٹرائل نہیں ہو سکتا،جے آئی ٹی نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے گواہان سے اپنی مرضی کے مطابق بیان لینے کی کوشش کی،

گواہان پر نہ صرف نواز شریف کے حق میں دیئے گئے بیانات واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی ممبران کو دھمکانے سے متعلق باتیں بھی عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے عدالتی اختیارات استعمال کئے اور دستاویزات کے لئے غیر قانونی طور پر چیئرمین نیب کو بلایا جبکہ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بنک کے نمائندوں پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے۔

حالانکہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حدیبیہ پیپرز ملز کیس پر تحقیقات نہیں کی جاسکتی ٗپوری تحقیقات جے آئی ٹی ممبران کی بد نیتی کو ظاہر کرتی ہے ٗاختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے قانونی فرمز کی خدمات لی گئیں ، تمام شواہد قانون کے برخلاف اکٹھے کئے گئے ٗجے آئی ٹی کے حاصل کئے گئے شواہد قانون کے مطابق قابل قبول نہیں اور فائنڈنگز کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔

عدالت عظمی میں دائر کی گئی درخواست میں جے آئی ٹی رپورٹ کے جلد نمبر 10 سے متعلق موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جلد نمبر 10 فراہم نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اسے مشتہر نہ کرنا بدنیتی ظاہر کرتا ہے، کیس چلانے سے پہلے جلد نمبر دس فراہم کی جائے، جلد نمبر دس کی فراہمی کے بعد ہی وزیراعظم عدالت کے سامنے موقف پیش کر سکیں گے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے مدعا علیہان کو کوئی دستاویز نہیں دکھائی، جے آئی ٹی نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر کام کیا۔

کوئی دستاویز تصدیق شدہ اور اوریجنل نہیں، درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے وزیراعظم سے متعلق ریمارکس تعصب ظاہر کرتے ہیں، تمام تفتیشی متعصب ، غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہے۔وزیراعظم کے اعتراض میں کہا گیا کہ تمام تفتیشی عمل قانونی ضابطوں کیخلاف ہے۔اعتراض میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ نامکمل اور نقائص سے بھرپور ہے، نامکمل رپورٹ کے باعث مدعا علیہان کیخلاف آرڈر پاس نہیں کیا جاسکتا، درخواست میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے عدالت کے سامنے کہا کہ مکمل رپورٹ جمع کرائی جارہی ہے۔

اب جے آئی ٹی کو مزید کوئی ریکارڈ جمع کرانے نہ دیا جائے۔مدعا علیہان کے ٹرائل کیلئے قانون کے مطابق مواد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔فیئر ٹرائل مدعا علیہان کا بنیادی حق ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ شفاف تحقیقات کے بعد ٹرائل شفاف ہوگا ٗ غیر شفاف تحقیقات کو کالعدم قرار دیاجائے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…