لندن (آئی این پی ) برطانوی نشریاتی ادارے کی رپور ٹ میں کہاگیا ہے کہ بیرسٹر شریف الدین پیرزادہ پاکستان میں ہر فوجی آمر کی بیساکھی رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کو انہوں نے ہی اقتدار میں رہنے کے آئینی اور قانونی راستے بنا کر دیئے ۔ جمعہ کو اپنی ایک رپورٹ میں بی بی سی نے کہاکہ سید شریف الدین پیرزادہ اپنے 94ویں جنم دن کے روز جمعہ کی صبح کراچی میں انتقال کر گئے۔
ان کی پیدائش 12 جون 1923 کو انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر برہان پور میں ہوئی۔ ان کے والد بھی وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے اور انڈین سول سروس میں رہے۔ شریف الدین پیرزادہ نے اپنے کیرئیر کی ابتدا بمبئی ہائی کورٹ سے کی۔ وہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے جونیئر بھی رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے اپنی لا فرم قائم کی۔ ان کا شمار پاکستان کے مہنگے ترین وکلا میں کیا جاتا تھا۔وہ حکومت پاکستان کے کئی اہم منصب پر فائز رہے۔ انھوں نے دو بار بحیثیت وزیر خارجہ، تین بار اٹارنی جنرل اور پھر سابق فوجی صدر جنرل مشرف کے سینیئر مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے۔ 1996 سے 2008 تک وہ اعزازی سفیر بھی رہے جس کا رتبہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ یہ تمام منصب ان کے پاس زیادہ تر فوجی حکومتوں کے دوران رہے ۔شریف الدین پیرزادہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا انہوں نے کبھی کسی فوجی حکمران کی طرف داری نہیں کی بلکہ قانونی مشیر کے طور پر انہیں معاونت فراہم کی۔پاکستان کے قیام کے 11 سال بعد جنرل ایوب خان کے نافذ کیے گئے پہلے مارشل لا کی انہوں نے حمایت۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوب خان نے ان کے علاوہ دیگر وکلا منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بلایا تھا جبکہ جنرل ضیاالحق نے چیف جسٹس کے کہنے پر ان کا انتخاب کیا تھا
لیکن اے کے بروہی کو بھی شامل رکھا گیا۔ میں سنتا رہا۔ اس کے بعد مشرف کو کہا کہ کیا ہم اکیلے بیٹھے سکتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور مارشل لا درست نہیں۔ آپ کی سول طرح کی حکومت ہونی چاہیے۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ پاکستان میں عدلیہ نے جب بھی فوجی حکومت کو نظریہ ضرورت کے تحت زندگی بخشی تو اس میں ہر بار شریف الدین پیرزادہ کی حکمت عملی اور دلائل اہمیت کے حامل ہوتے۔ وہ آئین کی تشریح اپنے نظریے اور سوچ کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرنے میں اکثر کامیاب رہتے۔رپور ٹ کے مطابق میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب صدر پاکستان سے اسمبلیوں کو معطل کرنے کے اختیارات واپس لیے گئے تو آئینی درخواست کی سماعت کے لیے عدالت نے انہیں معاونت کے لیے طلب کیا۔ شریف الدین پیرزادہ نے ان اختیارات کو سیفٹی وال قرار دیا اور اس کو جاری رکھنے کی حمایت کی تھی۔
ان اختیارات کے تحت ہی محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں معطل کی گئی تھیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے آخری فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو بھی انہوں نے آئینی راستہ نکال کر دیا تھا۔ شریف الدین پیرزادہ نے اپنے ایک انٹرویو میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پہلی میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں تمام جنرلز موجود تھے اور ان جنرلز کا کہنا تھا کہ مارشل لا کا اعلان ہو اور جنرل مشرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنیں۔’میں سنتا رہا۔ اس کے بعد مشرف کو کہا کہ کیا ہم اکیلے بیٹھے سکتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور مارشل لا درست نہیں۔ آپ کی سول طرح کی حکومت ہونی چاہیے۔شریف الدین پیرزادہ نے ہی جنرل پرویز مشرف کو ملک کا چیف ایگزیکیٹو بننے کا مشورہ دیا تھا اور اس منصب کے لیے آئینی ڈرافٹ بنا کر دیا، جس طرح انہوں نے جنرل ضیاالحق کو بنا کر دیا تھا لیکن اس بار اس میں کچھ تبدیلیاں تھیں۔
شریف الدین پیرزادہ نے بتایا کہ پرویز مشرف نے ڈرافٹ دیکھ کر کہا تھا کہ اس میں تو مارشل لا کا کوئی ذکر نہیں، لوگ ہمارے احکامات نہیں مانیں گے جس کے بعد انہوں نے مشرف کو یقین دھانی کرائی کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کر چکی تھیں۔پاکستان میں جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی کے بعد ملک میں وکلا کی سب سے بڑی جدوجہد چلی تو شریف الدین پیرزادہ اپنی کمیونٹی کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئے۔ انہوں نے افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ اس کی مخالفت کرتے۔انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں متعدد بار پاکستان کی قیادت کی اور وہاں ہیومن رائٹس کونسل اور سکیورٹی کونسل میں خطاب کیا۔
اس کے علاوہ وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے جج اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے منتخب سیکریٹری کے منصب پر بھی فائز رہے۔شریف الدین پیرزادہ پاکستان کے قیام کی تاریخ، محمد علی جناح کی زندگی اور پاکستان کے آئین سمیت دیگر موضوعات پر دس کے قریب کتابوں کے مصنف بھی تھے۔سینئر قانون دان ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ شریف الدین کا سیاسی اور قانونی کنٹریبیوشن منفی زیادہ رہا ہے لیکن ان کے انتقال کے بعد اس پر بات نہیں کی جاسکتی۔ ‘میرا ہمیشہ ان کے ساتھ نظریاتی اختلافات رہا۔ پیرزادہ کا یہ نظریہ تھا کہ وکیل وکیل ہے اس کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔