اسلام آباد(آئی این پی )سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نیوز لیکس اورٹوئٹ کا معاملہ وقتی طور پر دب گیا ہے ، مستقل طور پر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا جس کی وجہ سے کوئی بھی سرپرائز مل سکتا ہے، قوم پرست جماعتوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ اچھا ہوا حکومتی اتھارٹی برقرار رہی ،ٹوئٹ واپس لے لیا گیا آئندہ اس سے اجتناب کیا جائے ۔ جبکہ حکومتی اراکین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سیاسی اور عسکری
قیادت نے اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرلیا ہے اس کو طول دینے کیلئے بعض جماعتیں اس میں کیڑے نکالنے کی کوشش نہ کریں ، خس کم جہاں پاک ، فوج کے خود ساختہ ترجمانوں پر ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کی جائے ، وہ عناصر جو فوج کی انگلی پکڑنے کی کوشش میں تھے ان کا ہاتھ جھٹک دیا گیا ہے کہ ہم سے پیچھے رہو۔ ایوان میں ڈان لیکس کے معاملے پر وزیر برائے اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کی برطرفی اور اس معاملے کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اشاعت نہ کرنے پر بحث شروع ہو گئی ہے ۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جنوری 2017میں کھاریاں میں پاک فوج کے سربراہ کے دربار سے خطاب کے بارے میں ٹائمز آف لندن میں اندرونی کہانی پر مشتمل خبر شائع ہوئی مگر اس کا نوٹس نہیں لیا گیا کیا اسے سلامتی پر حرف نہیں آیا تھا اگر نیوز لیکس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا ہے تو کھاریاں دربار سے چیف آف آرمی سٹاف کے خطاب کے حوالے سے لند ن میں شائع ہونے والی خبر سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس پر خاموشی کیوں اختیار کی گئی ، خوش آئند ہے کہ آئی ایس پی آر کا ٹوئٹ واپس ہوگیا ہے ۔ توقع ہے کہ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر جو ٹوئٹ جاری کیا گیا تھا اور جس سے ایرانی صدر کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا
اس ٹوئٹ سے بھی ادارہ دستبرار ہو جائے گا۔ ملکی وقار کا معاملہ ہے جب وزیراعظم نے کاروائی کی ہدایت کردی گئی تو اس پر اصرار کیوں کیا گیا کہ سفارشات پر کیوں عمل درآمد نہیں کیا گیا ، لب ولہجہ درست نہیں تھا ، سیاستدانوں کو غور کرنا چاہیے جب میمو گیٹ آیا تو موجودہ وزیراعظم نوازشریف کالا کوٹ پہن کر صدر پاکستان کے خلاف گواہی دینے کیلئے سریم کورٹ پہنچ گئے کہ پاکستان کی مسلح افوا ج کے سپریم کمانڈر نے قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے ۔اور اس وقت سلامتی وحساس اداروں کے سربراہان بھی وردیوں میں بغل میں فائلیں دبائے نوازشریف کے پیچھے پیچھے تھے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث محمد نیازی نے کہا کہ فوج پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اس کی طرف سے ٹوئٹ آنا پریشان کن ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جس سے فوج کے مورال کو نقصان پہنچے ، عوامی کی مدد کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی ، ٹوئٹ کو ہوادینے کی کوشش نہ کی جائے خوش اسلوبی سے مسئلے کو حل کر لیا گیا ہے اب بھی بعض سیاسی جماعتیں اسے طول دینے اور کیڑے نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ وہ ملک کی حالت پر رحم کھائیں فتح صرف اور صرف پاکستان کی ہوئی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی میں قطعاً یہ نشاندہی نہیں کر رہا ہوں کہ کون خاوند ہے اور کون بیوی ہے ،
سول ملٹری گاڑی کے دو پہیے ہیں ۔ ان حقائق سے پردہ اٹھایا جائے جس کی بنیاد پر دیگ ابالی جا رہی تھی کیونکہ جب اس دیگ کو الٹا گیا تو وہ خالی نکلی ۔ دو چھوٹے افسران کو کیوں سزا ملی ۔ متعلقہ وزیر دیگ میں پکنے والے پانی سے آگاہ ہوں گے اور اس حوالے سے سینیٹ کی رہنمائی کردیں مہربانی ہوگی ۔ قوم پرست سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ فوجی آمریتیں درحقیقت سیکیورٹی رسک تھیں ان کی وجہ سے اداروں کے عزت واحترام پر حرف آیا اور گناہ گار سیاستدان اور عوام ٹھہرائے جاتے ہیں ۔ تاثر ہے کہ حکومت اور ملٹری میں تعلقات اچھے نہیں ہیں ۔مسئلے کے حل کیلئے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے اور سارے اداروں کو اس کو جواب دہ ہونا چاہیے ۔ اچھا ہوا حکومتی اتھارٹی برقرار رہی ،ٹوئٹ واپس لے لیا گیا آئندہ اس سے اجتناب کیا جائے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ فرحت اللہ بابر نے مناسب بات کی ہے معاملے کو سمیٹا جائے ، نیوز لیکس پر ٹی وی چینلز پر ماہانہ 1200پروگرامز نشر ہوتے رہے ۔ خس کم جہاں پاک مردے کو زندہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ تحریک انصاف کے سینیٹر ولیم نے کہا کہ اس معاملے میں فوج کا رویہ اسپیشل رہا، انہوں نے فوجی سطح پر برقرار رکھا کیونکہ قوم کی سلامتی اور عزت کا معاملہ ہے اس میں ذاتی اور انفرادی بات نہیں ہوتی ، دورائے ہیں کہ معاملہ حل ہوگیا ہے ، بعض خدشات کر رہے ہیں اچھا ہے رپورٹ کو شائع کردیاجائے ۔
مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ یہ دو افراد کی جنگ نہیں تھی کہ وہ بیٹھ کر مک مکا کر لیں، نیوز لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جائے ، کون لوگ تھے جنہوں نے قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا، جو تین قربانیاں دی گئی وہ ضائع جائیں گی ۔ وزیراعظم ہاؤس سے دشمن کے مقاصد پورے کرنے والا بیانیہ جاری ہوا۔ ملک دشمنی کرنے والوں کو سزا دینا ضروری ہے ۔ اصل چہرے سامنے نہ لائے گئے تو یہ معاملہ خطرناک صورتحال اختیارکر جائیگا اور جو سرپرائز آسکتا ہے وہ کسی کے وہم وگمان میں ہوگا نہ کسی کے لئے بھی بہتر ہوگا ۔ جے یوآئی (ف) کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ سول عسکری قیادت کے درمیان تنازعے اور تصادم کی فضاء پیدا ہوئی ، ماضی میں بھی دونوں کی آنکھ مچولی کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا اب بھی مشرقی اور مغربی سرحد پر چیلنجز ہیں ، عسکری قیادت میں لڑائی کے تاثر کو تقویت ملی تو اس سے دشمن کو فائدہ مل سکتا ہے ، وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے سے ماحول خراب اور اب مسئلہ کیسے حل ہوا کسی کے علم میں نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر سے منسوب سوشل میڈیا میں بیان دیکھا ہے کہ یہ ٹی 20کا میچ ہے ، کھیل ختم نہیں ہوا ، 17اوورز ہوگئے ہیں تین باقی ہیں ، یعنی خدشہ ہے کہ معاملہ حل نہیں ہوا بلکہ دبایا گیا ہے ، اب بھی ہم اقتدار کیلئے جی ایچ کیو کی طرف دیکھتے ہیں ایسی سیاست ملک وقوم کیلئے نقصان دہ ہے ۔
پی پی پی کے سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جس کے نتیجے میں حکومت نے ہار تسلیم کی ہو، مشاہد اللہ خان نے کو بھی وزارت سے جدا کیا گیا ، مشاہد اللہ خان جو نوازشریف کی پارلیمانی برگیڈ کے جاندار رکن ہیں ان کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو سوچیں ہمارے ساتھ کیا ہوگا ، حکومت نے خود ہی اعتراف کرلیا ہے کہ پرویز رشیدکے خلاف بھی کاروائی کی گئی ہے ، سول ملٹری تعلقات حقائق کے مطابق چل سکتے ہیں ، نوازشریف پارلیمنٹ سے جتنا دور بیٹھ کر فیصلے کریں گے کمزور ہو جائیں گے اور وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ کوئی ان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوگا ، نیوز لیکس کی رپورٹ کو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے پر سیاسی اور عسکری قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ اس معاملے پر ٹی وی چینلز نے ملک میں جنگ کا سماں پیدا کی کوشش کی اور چینلز اور تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ حکومت اب گئی اب گئی ، فوج کے خود ساختہ ترجمانوں پر ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کی جائے ، وہ عناصر جو فوج کی انگلی پکڑنے کی کوشش میں تھے ان کا ہاتھ جھٹک دیا گیا ہے کہ ہم سے پیچھے رہو۔