اسلام آباد (احمد ارسلان ) دل کی نرمی اور سختی کا تعلق ہدایت سے ہے ۔ جس کے دل میں ہدایت کا نور آجا تاہے وہ عشق رسول ﷺ میں سرشار ہو کر اسلام کا ایک سچاداعی بن جاتا ہے ۔ اور جن کے دلوں میں ، سماعت اور بصارت ہر مہریں لگ چکی ہوں ان کے دل ایسے سخت ہو تے ہیں کہ ہدایت کے نور کی روشنی اندر داخل نہیں ہونے پاتی ۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی تین صفتیں بیان کی ہیں کہ وہ بہرے ہیں نہ تو حق کو سنتے ہیں اور نہ اس کی طرف کان لگاتے ہیں۔
گونگے ہیں کہ حق بات کہتے نہیں اور اندھے ہیں کہ حق کو دیکھتے ہی نہیں۔ سماعت نافع، نطق حق اور رویت حق کے فقدان کے باعث ان پر چونکہ علم کے دروازے بند ہوچکے ہیں لہٰذا یہ اپنی سرکشی اور اپنے نفاق سے باز نہیں آئیں گے کیونکہ یہ غلطی یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے بارے میں فریب خوردہ ہیں۔ پس یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں کہ کسی طرح بھی سیدھے راستے کی طرف نہیں آئیں گے۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بیٹے عبداللہ پکے سچے آقا کریم ﷺ کے غلاموں میں سے ایک تھے ۔ ایک مرتبہ نبی محتشم ﷺ پانی نوش فرما رہے تھے کہ عبداللہ آگئے اور بار گاہِ رسالت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ایک گزارش ہے ، آپ نے استفسار فرمایا : بولو عبداللہ کیا چاہتے ہو؟ عبداللہ نے عرض کی حضور ﷺ گزارش اتنی ہے کہ بس آپ جو یہ پانی نوش فرما رہے ہیں اس میں کچھ مجھے عنایت ہو جائے تو مہربانی ہوگی، آپ ﷺ نے دوبارہ استفسار فرمایا کہ اے عبد اللہ اس پانی کا تم کیا کرو گے ؟ وہ بولے حضور ﷺ میں یہ پانی اپنے والد کو دوں گا کہ وہ اسے پی کر ایمان کی دولت سرشار ہو جائیں گے ۔
حضور اقدس ﷺ نے پانی عنایت کیا ۔ عبد اللہ اسے لے کر اپنے باپ کے پا س پہنچے اور پانی پینے کو دیا ،عبداللہ بن ابی نےسوال کیا کہ یہ کیا ہے ؟ بیٹے نے محبت سے جواب دیا کہ ابا جان یہ میرے آقا کریم ﷺ کا بچا ہوا پانی ہے ، پی لیں مگر کیا کریں کہ بات پھر وہی ہے جن کے دلوں پر ہی اللہ پاک نے مہر لگا دی ہو انہیں ایمان کی دولت کیسے نصیب ہو ؟ ۔ وہ بد بخت بولا ، عبداللہ یہ پانی لے جا ، اس کے بدلے تو کوئی پیشاب لے آ، میں وہ پی لوں گا مگر یہ نہیں پیوں گا ۔
بیٹا سخت غصے میں واپس آیا اور رحمت اللعالمین ﷺ سے اپنے باپ کے قتل کی اجازت مانگی مگر قربان جائیں نبی رحمتﷺ کی رحمدلی پہ کہ آپ ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایاکہ نہیں عبداللہ ، وہ تیرا باپ ہے، اس کی خدمت کر ، میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ محمد ؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا ہے ۔