اسلام آباد( آئی این پی ) سینیٹ کی ذیلی کمیٹی خزانہ کے کنونیئرسینیٹر محسن عزیز نے کہا ہے کہ 480ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی پر قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا ،حکومت نے ایک روز میں بنکوں کو کھلوا کر 480ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا ہے۔ ایک دن میں ہنگامی طور پر ادائیگی کردی گئی۔ کیوں ایسے کیا گیا۔ سرکاری طریقہ کار اور محکموں کو روند کر بے ضابطگی کی گئی۔ جمعرات کو سینیٹ کی ذیلی کمیٹی
خزانہ کے کنونیئرسینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں 480ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی پرکنونیئرسینیٹر محسن عزیزنے کہا کہ قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا ،حکومت نے ایک روز میں بنکوں کو کھلوا کر 480ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا ہے۔ ایک دن میں ہنگامی طور پر ادائیگی کردی گئی۔ کیوں ایسے کیا گیا۔ سرکاری طریقہ کار اور محکموں کو روند کر بے ضابطگی کی گئی۔کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ ادائیگی کرنے والوں کی ذمہ داری کا تعین کرنا پڑ ے گا۔ 36ارب روپے کی اضافی ادائیگی بھی ہوئی لیکن بجلی خریدی نہیں گئی۔صورتحال آج بھی جوں کی توں ہے نہ بجلی ملتی ہے۔نہ گردشی قرضے ختم ہورہے ہیں۔ آزاد ذرائع کی رپورٹ کے تحت کل بجلی کا شارٹ فال 7800میگاواٹ تھا۔ کنوینیر کمیٹی نے کہا کہ بجلی کے شارٹ فال پرسینٹ کے آج کے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا گیا ہے۔ بجلی پیداواری کمپنیوں کے زیر استعمال تیل لاہور میں کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے اور سوال اٹھایا کہ بیلنس شیٹ دکھائی جائے ملک و قوم کے ساتھ کھلواڑ کا خمیازہ عوام اور صنعت کار بھگت رہے ہیں۔ ملک کی جڑیں کمزور کی جارہی ہیں۔ کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ ایک ایک پلانٹ میں 50 سے100 ملین کا گھپلا کیا گیا پلانٹس کی قیمت مختلف تھی لوٹی گئی رقم جیبوں میں ڈالی گئی افسوس کی بات ہے کہ ٹیرف کا بوجھ صارفین
اور صنعت کار ادا کر رہے ہیں۔ سپانسرز کی طرف سے کی گئی غلط بیانی کو نیپرا نے بھی قبول کیا ،36 ارب روپے کی اضافی ادائیگی بھی کی گئی ، کمپنیوں کو دی گئی سرکاری ضمانت کے باوجود کمپنیوں کو پوچھا نہیں جاسکتا لیکن کمپنیاں دنیا میں ہمیں بدنام کرتی ہیں۔کنوینر کمیٹی نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے تحت بجلی کی پیداواری کمپنیوں نے جو معاہد ہ کیا اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ کمیٹی میں معاہدے کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت پر تحریری جواب نہیں دیا گیا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ہیٹ ریٹ کی شرط ادائیگی کے بعد میں لگائی گئی تاکہ آڈٹ سے بچا جاسکے۔ یہ ملی بھگت ہے۔ قوم کو بے وقوف بنایا گیا۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ معاملہ عدالت میں لے جاکر حکم امتناعی لیا جائے۔ اضافی ادائیگیاں جان بوجھ کر کی گئیں۔ بہانہ بنایا گیا تاکہ کمپنیاں عدالتوں میں جائیں کمیٹی مک مکا نہیں کرے گی۔ سینیٹر سعو د مجید نے کہا کہ 2012میں بھی ادائیگیا ں کی گئیں اور کمیٹی 2017میں جواب مانگ رہی ہے۔ اگر ادائیگیاں معاہدوں کے تحت کی جاتیں تو تحفظات نہ ہوتے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اعتراضات کا معاملہ کیوں حل نہ ہوسکا۔
نیپرا آگا ہ کرے کہ آئی پی پیز کے ساتھ ٹیرف حکومتی معاہدوں کے تحت کیا گیا۔ کنوینیر کمیٹی نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے ہر صفحے میں محکمانہ کمیٹی کو بھی عمل درآمد کی سفارش کی گئی ہے اورکمیٹی نے آڈیٹر جنرل کے کردار کو سراہا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آڈیٹر جنرل نے کسی کے خلاف بات کی جسارت کی ہے۔ حکومت بے دردی کے ساتھ اگر رپورٹ پھینک دے تو محکمہ کی حیثیت ختم کرنے کے برابر ہے۔ انتہائی اہمیت کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔قوم کو سب جواب دہ ہیں۔ حکومت نے 27جون 2013کو ہنگامی اجلاس بلواکر وزارت خزانہ کو خط لکھا۔ سٹیٹ بنک کھلواکر اسی دن ادائیگیاں کردی گئیں لیکن کمیٹی کے لیے اب بھی رکاوٹیں ہیں۔ نیپرا حکام نے آگاہ کیا کہ اس گردشی قرضے میں ادارے کا کوئی کردار نہیں۔ صرف ہیٹ ریٹ کا اندازہ کرتے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی حکام نے بتایا کہ 17بجلی پیداواری کمپنیاں عدالتوں میں گئی ہوئی ہیں۔ کمیٹی کے اجلا س میں سینیٹرز کامل علی آغا ، سعود مجید ، وزارت پانی و بجلی ،آڈیٹر جنرل آف پاکستان ، ایف بی آر کے افسروں نے شرکت کی۔