اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں معاشرتی تقسیم اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا رونا تو ہر کوئی روتا نظر آتا ہےاور اس کی تازہ مثال لاہور کا ایک رکشہ ڈرائیور ہے جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ تین کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ ایک ویب سائٹ ٹی وی کو انٹرویو میں بی اے ، بی ایڈ، ایم اے انگلش ، ایم اے ہسٹری اور ایم اے پاک سٹڈیز کے ڈگری ہولڈر 57سالہ رکشہ ڈرائیور محمد سلیم نے یوم پاکستان پر پاکستانی
نوجوان کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستانی نوجوان تعلیم حاصل کریں مگر ایسی تعلیم جو نہ صرف ان کو جدید علوم سے بہرہ ور کرے بلکہ عملی زندگی میں بھی ان کے کام آئے۔ پاکستانی نظام تعلیم ، رشوت اور سفارش کی وجہ سے حکمرانوں اور بیوروکریسی سے نالاں اعلیٰ تعلیم یافتہ رکشہ ڈرائیور محمد سلیم نے کہا کہ میں نے بہت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی، میں سکول سے آکر لوگوں کے بوٹ پالش کرتا تھا اور مزدوروں کی طرح تگاریاں بھی اٹھاتا رہا۔ میرے والد نے میٹرک کے بعد مجھے درزیوں کا کام سیکھنے کیلئے ایک درزی کی شاگردی میں دے دیا جس پر میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میں تعلیم حاصل کروں گا اور ساتھ محنت مزدوری بھی کروں گا۔ میں نے محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنا تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں حاصل کیں ، میرا شوق تھا کہ میں کسی کالج یا یونیورسٹی میں بطور پروفیسر تعلیم کو پھیلانے کا ذریعہ بنوں مگر 27سال نوکری کیلئے سرکاری دفاتر میں دھکے کھائے اور درخواست بازی کرتا رہا مگر بطور پروفیسر یا استاد مجھے ملازمت نہ دی گئی کیونکہ نہ میرے پاس رشوت تھی اور نہ ہی سفارش۔ محمد سلیم کا کہنا تھا کہ اس کے 11بچے ہیں جن میں7بیٹیاں اور 4بیٹے ہیںجن میں سے کچھ کو اسے تعلیم سے ہٹا کر کام پرلگانا پڑا کیونکہ اس کے بچوں نے تعلیم حاصل کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے کہا کہ ہم کیوں
ایسی تعلیم حاصل کریں جو ہمیں نوکری تک نہ دلوا سکے، ایم اے انگلش کر کے معمولی نوکری نہیں کر سکتے۔ محمد سلیم کا کہنا تھا کہ تعلیم سوچ اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے بچوں کو کام پر لگانے کی وجہ پاکستان کا ابتر نظام تعلیم اور معاشرتی تقسیم ہے جو بے فائدہ تعلیم اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا باعث ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے ذہن پر کرسی سوار ہے وہ افسری کی کرسی کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔محمد سلیم
کا کہنا تھا کہ اس نے جوتعلیم حاصل کی اس پر اسےآج شرمندگی ہو رہی ہے ،اس کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ رکشہ چلانے والا آج لاہور شہر میں دو تین پلاٹوں اور قیمتی کوٹھیوں کا مالک ہے جبکہ میں آج بھی رکشہ ڈرائیور ہوں اور کرایہ کے گھر میں مقیم ہوں، میں نے تین سے چار لاکھ روپے لگا کر ایم اے انگلش کیا جبکہ اس وقت اتنے پیسوں میں لاہور میں ایک گھر بن سکتا تھا۔پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہاں تربیت یافتہ
اساتذہ کی کمی ہے جس کی بدولت بچے تعلیم سے متنفر ہو جاتے ہیں اگر تربیت یافتہ استاد ہونگے اور انہیں پڑھانے کا طریقہ آتا ہے توطالبعلم دلچسپی سے تعلیم حاصل کریں گے۔نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ایسی تعلیم حاصل کریں جس کے ساتھ وہ ہنر مند بھی بن سکیں تاکہ عملی زندگی میں وہ بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ محمد سلیم نے بتایا کہ کئی افراد نے اس کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی جن میں وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی ہیں
جنہوں نے ان کی مالی امداد کیلئے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا جسے اس نے بطور آٹو گراف تو اپنے پاس رکھ لیا مگر کسی بھی قسم کی مالی امداد حاصل نہیں کی۔اپنی ڈگریوں کے حوالے سے اس کا کہنا تھا کہ یہ اب میرے کسی کام کی نہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کو آگ لگ چکی ہے کیونکہ ان ڈگریوں نے مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ میں تو رکشہ چلا کر اور اپنی لکھی کتابیں فروخت کر کے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ
پال رہا ہوں۔ محمد سلیم نے یوم پاکستان کے موقع پر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی شدید خواہش ہے کہ وہ بطور پروفیسر کسی تعلیمی ادارے میں خدمات سر انجام دے بیشک اسے ایک ہی دن کیلئے حکومت پروفیسر کیوں نہ مقرر کرے اس کو قبول ہو گا۔