اسلام آباد(آئی این پی)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں واقع اربوں روپے کی کشمیر پراپرٹی اونے پونے داموں پر لیز پر دئیے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں لیز پر دی گئی تمام اراضی کی مکمل تفصیلات طلب کر لیں جبکہ لیزکی مدت 33 سال سے بڑھا کر 100 سال کرنے کی منظوری دیدی‘ کمیٹی نے صوبہ خیبر پختونخوا ا ور گلگت بلتستان کے درمیان سرحدی
تنازع کا نوٹس لیتے ہوئے دونوں حکومتوں کے چیف سیکرٹریز کو طلب کر لیا۔ کمیٹی نے متفقہ قرار داد کے ذریعے حریت رہنما یاسین ملک کی گرفتاری کی مذمت کی اور رہائی کا مطالبہ کیا۔ خصوصی کشمیر کمیٹی میں سینٹ کے ایک رکن کو بھی نمائندگی دینے کا مطالبہ۔ بدھ کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین ساجد میر کی زیر صدارت یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت سیکرٹری امور کشمیر پیر بخش جمالی و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ سیکرٹری امور کشمیر نے کمیٹی کو پاکستان میں موجود کشمیر پراپرٹی بارے بریفنگ دی۔ انہوں نے کہاکہ یہ پراپرٹی مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت نے پاکستان میں خرید رکھی تھیں۔ 1947ء میں جنگ آزادی کے بعد آزاد کشمیر میں قائم ہونے والی حکومت نے ان جائیدادوں کا انتظام سنبھالا لیکن انتظامی مسائل کی وجہ سے 1955ء میں کشمیر پراپرٹی کا انتظام و انصرام وزارت امور کشمیر نے سنبھالا اور ابھی تک یہی وزارت ان کے امور چلا رہی ہے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان میں کشمیر پراپرٹی کے نام سے 4288 ایکڑ زرعی اراضی او 313 کنعال کمرشل پراپرٹی موجود ہے۔ ان پراپرٹیز سے وزارت کو 6 کروڑ روپے آمدن ہوتی ہے جبکہ 6 کروڑ 70 لاکھ اخراجات آ رہے ہیں۔ کمیٹی نے زرعی زمینوں او ر کمرشل جائیدادوں سے وصول ہونے والے کرایہ کو مارکیٹ ریٹ سے کم قرار دیتے
ہوئے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور وزارت امور کشمیر کو ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں کشمیر پراپرٹیز اور ان کی لیز بارے تمام تفصیلات پیش کی جائیں۔ اس موقع پر کمیٹی نے لیز کی مدت بھی 33 سال سے بڑھا کر 100 سال کرنے کی ہدایت کی۔ کمیٹی نے گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے درمیان سرحدی پٹی کے تنازع پر بھی چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اور چیف سیکرٹری جی بی سے آئندہ اجلاس میں رپورٹ طلب کر لی۔ اجلاس میں حریت رہنما یاسین ملک کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری پر مذمتی قرار داد بھی اتفاق رائے سے منظور کر لی۔ قرار داد سینیٹر رحمن ملک نے پیش کی۔
قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ بھارتی حکومت اس پر حریت رہنما کو فی الفور رہا کرے اور ان کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی جائے۔ سینیٹر رحمن ملک نے تجویز پیش کی کہ بھارتی مظالم بے نقاب کرنے کیلئے اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کرایا جائے جس میں مغربی ممالک کے سفراء کو مدعو کیا جائے۔