ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

خود کش بمبار کہاں سے آیا،سہولت کار انوارالحق کون ہے؟تہلکہ خیزانکشافات

datetime 17  فروری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(آئی این پی )وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ13فروری کوفیصل چوک لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ کے ذمہ دار نیٹ ورک کی نشاندہی ہو چکی ہے اوراس واقعہ میں ملوث خود کش بمبارکے سہولت کارکو گرفتارکر لیا گیا ہے اور دیگر دہشت گردوں کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں ۔ لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ میں اب تک ہونے والی تفتیش کے مطابق اس دہشت گردگروہ کا مرکز

افغانستان میں ہے۔دہشت گردوں کا یہ نیٹ ورک افغانستان میں بیٹھ کرپاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے ۔لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار بھی یہی نیٹ ورک ہے۔اسی نیٹ ورک نے لاہور میں دہشت گردی کے اس واقعہ کی منصوبہ بندی کی ۔اس دہشت گردی کی تیاری بھی افغانستان میں کی گئی اوراس میں جہنم واصل ہونے والا خود کش بمبار کا تعلق بھی افغانستان سے ہے جبکہ جہنم واصل ہونے والے خود کش بمبار کے سہولت کار انوار الحق کا تعلق باجوڑ سے ہے ۔میں نے شہداء کو گواہ بنا کرکہا تھا کہ آپ کا لہو ہم پر قرض ہے ۔ہم انشاء اللہ یہ قرض چکا کر دم لیں گے ۔میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردوں کی گرفتاری کی شکل میں ہم نے اس قرض کی پہلی قسط چکا دی ہے ۔میں اس اہم پیش رفت پر محکمہ پولیس اورسی ٹی ڈی محکمہ انسداد دہشت گردی کو اپنی طرف سے اورپوری قوم کی طرف سے شاباش دیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ انہو ں نے جس جانفشانی سے قاتل دہشت گردوں تک رسائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے اس پر وہ پوری قوم کی تحسین کے مستحق ہیں۔ اس واقعے میں 14 افراد شہید اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں ہماری پولیس کے انتہائی قابل، محنتی اور دیانتدار ڈی آئی جی، ایس ایس پی، پولیس اہلکار ، ٹریفک وارڈنز اور دوسرے افراد بھی شامل تھے۔ کیپٹن سید احمد مبین اور زاہد گوندل میری اپنی ٹیم کے رکن تھے۔ مجھے ان سب کی جدائی کا جو صدمہ ہے، اس کا اظہار میرے لئے الفاظ کے ذریعے کرنا ممکن نہیں۔

میں نے شہداء کے نماز جنازہ میں بھی شرکت کی اور پھر صوبے کے مختلف مقامات جیسے ساہیوال، رینالہ، دیپالپور، قصور اور نارووال وغیرہ میں جا کر خود ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور ان کے بچوں کو حوصلہ دیا۔ میں نے پولیس کے جوانوں اور افسروں کو اپنے ساتھیوں کی شہادت پر ملول تو پایا ہے لیکن ان کا حوصلہ اور عزم نہایت بلند اور مضبوط ہے۔ اس سے پہلے میں نے حادثے کے بعد گنگارام ہسپتال جا کر زخمیوں کی عیادت بھی کی۔ میں ایک ایک زخمی سے ملا۔ میں نے دیکھا کہ زخمی ہونے کے باوجود ان کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ میں نے انہیں دہشت گردی کی جنگ میں پہلے سے بھی زیادہ پرعزم پایا۔اسی طرح میں نے شہداء کے ورثاء کو تمام تر رنج کے باوجود جذبہ حب الوطنی سے معمور دیکھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہداء کے معصوم اور کمسن بچوں کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر ہر اہل دل انسان کی طرح میری آنکھیں بھی بھر آئیں لیکن یقین جانیے کہ اس وقت جب کسی شہید کی بیوہ نے یہ کہا کہ میں اپنے دوسرے بیٹے کو بھی وطن پر اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے پنجاب پولیس میں بھیجوں گی تو میرا حوصلہ کئی گنا بڑھ گیا۔ اسی طرح جب ایک معصوم بچے نے مجھ سے کہا کہ وہ بھی بڑا ہو کر اپنے والد کی طرح دہشت گردو ں کا مقابلہ کرے گا تو میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ پاکستانی قوم کو کوئی دہشت گرد شکست نہیں دے سکتا۔

وزیر اعلی محمد شہباز شریف نے آج ماڈل ٹاؤن میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اس موقع پر کوئی سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ مجھے دہشت گردی کے اس بڑے سانحے کے حوالے سے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا ایک غیرذمہ دارانہ بیان پڑھ کر دلی رنج اور دکھ پہنچا۔ انہوں نے محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے اس المناک موقع پر بھی پنجاب پولیس اور حکومت پر تنقید کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے اس حقیقت کو بھی فراموش کر دیا کہ دہشت گردی پورے پاکستان کا اور پاکستان کے عوام کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اس سے اگلے روز جب کے پی کے میں بم دھماکہ ہوا اور اس میں کئی شہادتیں ہوئیں تو مجھے اس پر اتنا ہی دکھ پہنچا جتنا لاہور یا پاکستان میں کسی اور جگہ ہونے والے ایسے واقعے سے پہنچ سکتا ہے۔ میں نہایت دردِ دل کے ساتھ اپنے تمام سیاسی رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمیں ایسے المناک واقعات کو قومی مسئلہ سمجھنا چاہیئے اور ان پر پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ میں نے سانحے کے فوراً بعد کہا تھا کہ ہمارے شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

ہم یہ جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک لڑیں گے اور انشاء اللہ اس واقعے میں ملوث ایک ایک فرد کی نشاندہی ہوگی اور وہ اپنے کیفر کردار تک پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں ان دہشت گردوں کا تعاقب کرنے ، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کا سراغ لگانے اورانہیں گرفتار کرنے میں کامیابی عطا کی۔ ہم اس پیش رفت پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے۔میں ایک بار پھر اس پیش رفت پرمحکمہ پولیس اورسی ٹی ڈی کوشاباش دیتاہوں جو یقیناًپوری قوم کی طرف سے تحسین کے مستحق ہیں۔ وزیر اعلی محمد شہباز شریف نے میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں ہمارا وفاقی حکومت کے ساتھ پورا اشتراک ہے ۔وفاقی اور صوبائی سیکورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف مل کر کام کر رہے ہیں ۔ انسداد دہشت گردی محکمہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے اس نے کارروائیاں کر کے سینکڑوں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا مقابلہ کیا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایااور ان کارروائیوں میں پنجاب کے اس ادارے کو پاک فوج اور وفاقی اداروں کا بھرپور ساتھ حاصل رہا ہے ۔

اس ادارے کے تین شعبے آپریشن، انویسٹی گیشن اور انٹیلی جنس ہیں اور اس ادارے کے اہلکاروں کو جدید تربیت سے آراستہ کیا گیا ہے اور اسی ادارے نے پنجاب سے ایک دہشت گرد گروپ کا مکمل صفایا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی قومی مسئلہ ہے اور یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور ہمیں یہ جنگ مل کر لڑنا ہے ۔ عسکری و سیاسی قیادت نے قومی سوچ کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا ۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ پنجاب پر الزام لگایا جاتا تھا یہاں دہشت گردوں کے سلیپرز سیل ہیں اور یہاں سہولت کار موجود ہیں ۔ پنجاب حکومت نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے قلع قمع میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سینکڑوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا ہے اور بڑی تعداد میں ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں عدالتوں سے سزائیں ملی ہیں جو پنجاب حکومت کی بڑی کامیابی ہے ۔ دہشت گرد نیٹ ورک کا تعلق افغانستان سے ہونا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ۔ وزیر اعظم سے میری درخواست ہے کہ اس مقصد کے لئے چاروں صوبوں کی مشترکہ کانفرنس بلائی جائے اور اس مسئلے کے حل کے لئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔

فوجی عدالتوں کی توسیع کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مکمل حمایت کرتی ہے کیونکہ ان عدالتوں کے یقیناًمثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ہم فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت کرتے ہیں۔دہشت گردوں اور سہولت کاروں کی سزاؤں پر اپیلیں سپریم کورٹ میں چل رہی ہیں جس طرح پہلے دہشت گردوں کو سزائیں مل چکی ہیں آئندہ بھی انہیں اپنے کئے کی سزائیں ملیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ پاک افواج ، رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے ہمارے ملک کے عظیم اثاثے ہیں اور ان کی مدد کی جب بھی ضرورت پڑی حاصل کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو رینجرزکی بھی مدد لیں گے۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے اس حوالے سے بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی غرض سے پنجاب پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس پر افسوس ہے ۔ محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب نے اپنے تمام آپریشنز وفاقی اداروں کے ساتھ ملکر ہی کئے ہیں ۔ گلش اقبال کے واقعہ میں ملوث تمام دہشت گرد وں کو اسی ادارے نے جہنم واصل کیا ہے ۔ہمیں سیاسی بیان بازی کی بجائے دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونا ہے ۔

حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک جن کی دہشت گردی سے لڑنے کے حوالے سے صلاحیت ہم سے بہتر ہے وہاں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ۔ ہمارا برادر ملک ترکی اور مغربی یورپ میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے یقیناًبے چینی پیدا ہوئی ہے تا ہم ہمارے اداروں نے ان واقعات کا جوانمردی، ہوشمندی اور پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور وفاقی و صوبائی اداروں نے مل کر کام کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کی زندگیوں میں ایسے چیلنجز آتے ہیں اور وہ ان کا بہادری سے مقابلہ کرتی ہیں ۔ افغان مہاجرین کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں اور ہم پچھلے تیس سالوں سے ان کی میزبانی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔ ہم نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان مہاجرین کے لئے وسائل فراہم کئے ہیں ۔ افغان مہاجرین پرامن ہیں تا ہم اگر ان کی صفوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں تو وہ ان کی نشاندہی کریں ۔ اس سے یقیناًان کی عزت و توقیر بڑھے گی ۔افغان مہاجرین اپنی صفوں میں موجود ایسے عناصر کی نشاندہی کا فریضہ ادا کریں ورنہ قانون حرکت میں آئے گا

۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ 1980 ء کی دہائی میں جب روس نے افغانستان میں حملہ کیا تو کس نے اختیار دیا تھا پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ بنانے کا ۔ انہوں نے کہا کہ اس نام نہاد جنگ سے پاکستان میں انتہا پسندی بڑھی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری بقاء کی جنگ ہے اور اسے ہم نے مل کر ہر قیمت پر جیتنا ہے ۔ماضی کی غلطیوں پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ہے ۔ الزام تراشی اور سیاست بازی سے باز رہتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کیلئے مل کر آگے بڑھنا ہے ۔ انشاء اللہ پاکستان سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہو گا اور یہ ملک امن کا گہوارہ بنے گا ۔

پریس کانفرنس کے دوران خود کش بمبار کے سہولت کار انوار الحق کے اعترافی بیان پر مبنی ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں اس نے اقرار کیا کہ اس نے افغانستان میں تربیت حاصل کی ہے اور اس کا تعلق کالعدم جماعت الاحرارسے ہے ۔صوبائی وزراء رانا ثناء اللہ ، کرنل (ر) محمد ایوب، چیف سیکرٹری ، انسپکٹر جنرل پولیس ،سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی بھی اس موقع پر موجود تھے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…