اسلام آباد(آئی این پی)قو می اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے لال مسجد آپریشن کیلئے بھجوائے گئے وفاقی پولیس اہلکاروں کی جانب سے آبپارہ میں سرکاری فلیٹس پر قبضے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ لال مسجد خالی ہو گئی لیکن سرکاری گھروں پر قبضہ ہو گیا، قانون نافذ کرنے والے خود قبضہ مافیا بنے ہوئے ہیں، آئندہ اگر پولیس کو سیکٹرایف الیون میں سیکورٹی کیلئے بھیجا جائیگا تو وہاں بھی کیاقبضہ کر لیں گے ،پولیس اہلکار سپریم کورٹ سے فوری اپنا کیس واپس لیں اور غیر قانونی قبضہ ختم کریں۔
کمیٹی رکن غلام سرور خان نے کہا کہ پولیس اہلکاروں سے زیادہ مضبوط مذہبی مافیا ہے،کمیٹی نے وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور سی ڈی اے سے اسلام آباد میں مدراس ،مساجد اور مذہبی لوگ کی سرکاری رہائش گاہوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔پیر کو ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنونیر ر جب علی کی زیر صدرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا،کمیٹی چیئر مین رجب علی نے کہا کہ کمیٹی کا مقصد اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہوں کے معاملات درست کرانا ہے، اسلام آباد میں 272 سرکاری گھروں پر غیر قانونی قبضہ تھا جسے خالی کروا لیا گیا ہے۔اجلاس میں سٹیٹ آفس حکام نے کہا کہ آبپارہ میں409سرکاری گھر ہیں جن میں سے 60گھروں پر پولیس اہلکار ناجائز قابض ہیں،لال مسجد آپریشن کے وقت عارضی طور پر یہ فلیٹس پولیس کو دئیے گئے تھے مگر پولیس اہلکار تاحال اس پر قابض ہیں ،اس موقع پر وفاقی پولیس حکام نے کہا کہ آب پارہ میں فلیٹس کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، جس پر چیئر مین کمیٹی رجب علی نے کہا کہ وردی میں پولیس اہلکاروں کے پاس کیا کوئی اخلاقی، سماجی یا کوئی قانونی حیثیت ہے کہ انھوں نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے،رکن کمیٹی سرور خان نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے خود قابض بنے ہوئے ہیں، اہلکار لال مسجد آپریشن کے لیے بھجوائے گئے تھے اور غیر و قانونی قابض بن گئے، کیا کل ایف الیون میں سیکورٹی کے لیے بھجوائیں گئے تو وہاں بھی قبضہ کر لیں گے۔کمیٹی ارکان نے کہا کہ پولیس اہلکار جو غیر قانونی طور پر قابض ہیں اور کورٹ گے ہیں فوری طور پر کیس واپس لیں۔
لال مسجد خالی ہو گئی لیکن گھروں پر قبضہ ہو گیا۔پولیس کو تالے توڑ کر فلیٹس پر قبضہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں، وفاقی پولیس حکام نے کہا کہ پولیس کے تیرہ ہزار ملازمین ہیں اور چند سو گھر ہیں، آج تک اسلام میں آئی جی اسلام آباد کا دفتر نہیں بن سکا،دفتر بنوانے کے لیے ہر جگہ گے مگر ابھی تک کچھ نہیں ہو سکے۔ پولیس کے پاس کالونی میں توسیع کے لیے فنڈز نہیں، وزیراعظم نے گزشتہ دور میں پولیس کی رہائشی کالونی بنانے کا اعلان کیا لیکن ابھی تک زمین الاٹ نہیں ہوئی ۔
اسٹیٹ آفس حکام نے کہا کہ اسلام آباد میں 62 ہزار سرکاری ملازمین ہیں جبکہ صرف17 ہزار سرکاری گھر ہیں۔ اس موقع پر کمیٹی نے سفارش کی کہ اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کو بھی سرکاری گھر دئیے جائیں۔اس موقع پر کمیٹی رکن سرور خان نے کہا کہ پولیس اہلکاروں سے مضبوط مذہبی مافیا ہے،جنہوں نے مدارس ،مسجدوں سے ملحقہ جگہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے،جس پر کمیٹی نے اسلام آباد میں مدراس ،مساجد اور مذہبی لوگ کی سرکاری رہائش گاہوں پر رہائش کی تفصیلات طلب کر لیں۔