لاہور(این این آئی ) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ڈاکٹرعافیہ کی امریکی جیل میں موت پوری پاکستانی غیرت مند عوام کی موت ہو گی،امریکی جیل میں عافیہ کی موت کا انتظار نہ کیا جائے ،ریاست پاکستان اوبامہ سے درخواست کرے کہ وہ عافیہ کی رہائی کے لیے خصوصی اختیارات کا استعمال کریں جس طرح دیگر 1300 قیدیوں کی رہائی کے لیے کیے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ رواں ماہ جنوری کی 20 تاریخ کو اوبامہ کی مدت ختم ہو رہی ہے اور نئے منتخب امریکی صدرٹرمپ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ۔
امریکہ کے صدربارک اوبامہ نے اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 1300 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور اس کے چند دن باقی ہیں اور ان چند دنوں میں اگر حکومت پاکستان عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے درخواست دے تو 100 فیصد امکان ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی ہو جائیگی۔اس کے لیے میں وزارت خارجہ سے بات کروں گا ۔سینٹ میں بھی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بات کرنا چاہوں گا لیکن وقت کم ہے اس لیے ریاست پاکستان سے اپیل کروں گا کہ امریکی صدراوبامہ کی مدت مکمل ہونے سے پہلے عافیہ کی رہائی کے لیے درخواست دے کیونکہ ڈاکٹر عافیہ قوم کی بیٹی ہے اور پاکستان کی عزت ہے اور ہر لحاظ سے ہمارے اوپر یہ قرض ہے کہ ہم عافیہ کی رہائی کے لیے کوششیں کریں ۔ سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان پانامہ لیکس میں سب سے پہلے سپریم کورٹ آئی ہے پانامہ سکینڈل کے بعد جماعت اسلامی پاکستان نے سڑکوں پر احتجاج کیا۔ٹرین مارچ کیا ۔عدالتوں میں احتساب کے لیے بل پیش کیے اور اس کے ساتھ عدالت کے دروازے پر بھی دستک دی۔جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کیس میں جن لوگوں پر ذمہ داری بنتی ہے وہ نواز شریف اور اس کا خاندان ہے۔کیوں کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے خاندان کے چار افراد کا نام پانامہ لیکس میں آیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج عدالت نے ہمارے موقف کی تائید اور ہماری پٹیشن کی تعریف بھی کی ہے لیکن عدالت نے مناسب سمجھا کہ حکومت اپنا موقف پیش کرے اور اس کے بعد جماعت اسلامی کا موقف سنا جائے۔ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس خرابی کی جڑ حکمران خاندان ہیں۔جب تک حکمران خاندان کا احتساب نہ ہو اس وقت تک اصلاح کرنا ناممکن ہے اس لیے بدھ کو عدالت میں نئی درخواست جمع کرائی تھی جس میں جماعت اسلامی نے نواز شریف کو عدالت میں بلانے کی استدعا کی تھی اور مجھے امید ہے کہ وہ لمحہ ضرور آئے گا جب وزیراعظم کو عدالت میں آنا پڑے گا اور پانامہ لیکس کے حوالے سے جواب دینا پڑے گا۔انہوں نے کہاکہ میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پانامہ لیکس ایک بنیادی دستاویزات ہیں اور اس میں چھ سو سے زیادہ پاکستانیوں کے نام ہیں پانامہ لیکس میں ججوں کے نام،سابق بیوروکریٹس،سیاسی رہنماؤں اور عام لوگوں کے نام بھی ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں نواز شریف اور ان کے خاندان کا احتساب ہو اس کے بعد ان سب لوگوں کا احتساب ہو جن کا پانامہ لیکس میں نام ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم کو پانامہ لیکس کے کیس کے فیصلہ آنے تک کام سے روکا جانے کا کہا ہے۔میں نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ قبل از وقت ہے لیکن انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے پانامہ لیکس کا فیصلہ آنے تک کام سے روکا جائے کیونکہ اس مقدمہ میں نیب، ایف آئی اے اور دیگر ادارے ملوث ہوں گے تفتیش کرنے کے لیے بے شمار ایجنسیوں کو دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنی ہو گی ۔نواز شریف اگر وزیراعظم آفس میں رہے گا تو یہ ادارے کام نہیں کر سکیں گے۔ہمارے کمیشن کا مطالبہ اس وقت تھا جب تک عدالت نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی اور اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کا بھی کمیشن کا مطالبہ تھا مگر اب سپریم کورٹ نے خود ہی یہ موقف اختیار کیا ہے اور اس بینچ میں قابل لوگ ہیں جس پر ہمیں اعتماد ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بینچ اس قابل ہے کہ اس پورے کیس کو سنے اور ہم اس کے اچھے فیصلے کے انتظار میں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر پانامہ پر بھی کوئی فیصلہ نہیں آتا ہے اور ’’مٹی پاؤ‘‘ کی بنیاد پر فیصلے ہو گئے تو ہم سمجھیں گے کہ ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے مطابق کام ہو گیا جس کی ہمیشہ ہم نے مخالفت کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سراج الحق کا کہنا تھا کہ پانامہ ایک حقیقت ہے جن لوگوں کے نام پانامہ پیپرز میں ہیں وہ حقیقت ہے ۔اگر پانامہ حقیقت نہ ہوتا تو وزیراعظم نواز شریف اسمبلی میں اس پر بار بار کیوں خطاب کرتے اور قوم کے ساتھ خطاب میں وزیراعظم نے مانا ہے کہ میرے بیٹوں کے نام پانامہ لیکس میں ہیں اور یہ بھی مانا ہے کہ میں احتساب کے لیے تیار ہوں ۔