ممبئی(مانیٹرنگ ڈیسک ) قومی ائیرلائن کے بدقسمت طیارہ حادثے میں 47 افراد دنیائے فانی سے کوچ کرگئے جن میں معروف مبلغ جنید جمشید اور اْن کی اہلیہ بھی شامل تھیں‘ اس سانحہ پر دنیا بھر کے تمام ہی افراد رنجیدہ ہیں۔قومی ائیرلائن طیارے میں جنید جمشید کی موت پر جہاں اْن کے پرستار غمزدہ وہیں ہر کوئی اپنے الفاظ میں اْن کی خدمات کا اعتراف کررہا ہے‘ شوبز سے لے کر معروف مبلغ بننے تک کا کامیاب سفر کرنے والے جنید جمشید کے بچھڑنے پر ہر شخص انہیں خراج تحسین پیش کررہا ہے۔بھارت سے تعلق رکھنے والی شاعر ثمر یاب ثمر نے جنید جمشید کی موت پر اثر انگیز نظم تحریر کر کے جدائی کے زخم کو ایک بار پھر تازہ کردیا۔لکھتے ہیں ۔
نسیم مشکبار بھی کیوں آج سوگوار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
نسیم صبح کہہ گئی دلوں پہ برق پڑ گئی
چراغ تھا جو بجھ گیا وہ انجمن اجڑ گئی
وہ مہوشوں کی ٹولیاں وہ بزم جاں بچھڑ گئی
افسردہ نظم ہی نہیں غزل بھی بے قرار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
یہاں چمن میں بلبلیں تڑپ رہی ہیں دیکھ لو
ہیں تتلیاں بھی دم بخود بجھی کلی ہیں دیکھ لو
غموں سے چورچور قطرے شبنمی بھی دیکھ لو
کلیجہ غم سے پھٹ گیا یہ دل بھی اب فگار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
وہ شفقتیں عنایتیں ہمیں رلا رہی ہیں اب
وہ انکی نیک صحبتیں ہمیں رلا رہی ہیں اب
وہ خصلتیں وہ عادتیں ہمیں رلا رہی ہیں اب
وہ فخرِ ِ گل نہیں رہا نہ رونق بہار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
ہر ایک سمت پیار کے دئیے جلا کے چل دیا
وہ نفرتوں کی آندھیوں کا شر مٹا کے چل دیا
محبتوں کی امن کی ہوا چلا کے چل دیا
نہ اب کوئی انیس ہے نہ کوئی غمگسار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
ہمیں سخنوری کے وہ اصول سب بتا گیا
وہ سادگی کے فلسفے میں محنتیں سکھا گیا
وہ بدؤں کو اہل فن زبان داں بنا گیا
ہیں اہل فن بھی سر نگوں قلم بھی اب نزار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
جو کر رہا تھا آئینوں کو معتبر کہاں گیا
یہ تاج جس کے سر پہ تھا وہ نامور کہاں گیا
جسے میں ڈھونڈتا ہوں اب وہ شیشہ گر کہاں گیا
وہ ا ہل دل نہیں رہا نہ زینت دیار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
وہ بزمِ جاں کی جان تھا وہ انجمن پذیر تھا
وہ کاروانِ زندگی کا گویا اک امیر تھا
وہ با کمال شخصیت کی خود ہی اک نظیر تھا
کسے سنائیں اب یہاں جو میرا حال زار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
وہ گلستاں میں آیا جب عجیب دل لگی ملی
گلوں میں رنگ بھر گئے کلی کو تازگی ملی
زباں کو دلکشی ملی سخن کو زندگی ملی
مگر نہ رنگ و نو ر اب نہ کوئی گل بہار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
ہمیں اکیلے چھوڑ کر کہاں چلے جنید اب
سجا کے انجمن یہاں وہاں چلے جنید اب
سکوت ِبیخودی میں ہو بتاؤ کچھ جنید اب
حسیں لب کھلیں گے کب ہمیں بھی انتظار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
نہیں سکت ہے ضبط کی ظروف غم نچوڑ دوں
ہجوم غم سے مضطرب ہوں میکدہ بھی چھوڑ دوں
تمام شیشۂ و سبو یہیں پہ آج توڑ دوں
کہ اب وہ جام جم نہیں نہ کوئی ظرف دار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
ثمر مری دعا ہے یہ کہ قبر میں قرار ہو
جہاں چلے گئے ہیں وہ حضور کا جوار ہو
خدا کی رحمتیں ہوں واں کہ جنتی بہار ہو
لو خلد میں ملیں گے پھر ہمیں یہ اعتبار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
وہ مدح خوان ِ مصطفی کبھی نظر نہ آئے گا
وہاں گیا ہے لوٹ کر کبھی وہ پھر نہ آئے گا
شہید دین ِ مصطفی سلام ہو سلام ہو
اے ناز ِ دین مصطفی سلام ہو سلام ہو
کنیزِ مصطفی پہ بھی سلام ہو سلام ہو
اے جنتی مسافرو سلام ہو سلام ہو