اسلام آباد(این این آئی)قومی احتساب بیورو (نیب) نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کیلئے 3 ہیلی کاپٹروں کی خریداری اسکینڈل کی تحقیقات 22 سال بعد مکمل کرلیں۔نجی ٹی وی کے مطابق موصول ہونے والی نیب انویسٹی گیشن رپورٹ میں بتایاگیا کہ 1994 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آئی بی کیلئے 3 ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا آرڈر دیا گیا تھا جن کی خریداری کیلئے 21 لاکھ ڈالر لندن کے بینک میں ٹرانسفر کیے گئے مگر آج تک ہیلی کاپٹر پاکستان نہ پہنچ سکے اور نہ ہی قومی خزانے کی رقم واپس کی گئی۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 1994 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کی کابینہ ڈویژن نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کیلئے تین ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا ٹینڈر جاری کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کے وزیر ملک اللہ یار نے کابینہ ڈویژن پر دباؤ ڈال کر اپنے داماد ضیاء حسن پرویز کی ڈنمارک میں رجسٹرڈ کمپنی کش ہیون کو کنٹریکٹ دلوایا حالانکہ اس کمپنی کی بولی سب سے کم بھی نہ تھی۔پاکستان کے نجی بینک کے اعتراضات کے باوجود کابینہ ڈویژن کے دباو پر مذکورہ کمپنی کو 21 لاکھ ڈالر 1994 میں لندن میں ٹرانسفر کردئیے گئے جس کے بعد کابینہ ڈویژن کو آگاہ کیا گیا کہ ستمبر 1994 میں ہیلی کاپٹر پاکستان پہنچ جائیں گے مگر آج تک ہیلی کاپٹر پاکستان نہ پہنچ سکے اور نہ ہی 21 لاکھ ڈالر واپس کیے گئے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ایف آئی اے نے 1998 میں مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کیا بعد ازاں 2000 میں یہ کیس نیب کو ٹرانسفر کردیا گیاتاہم ہیلی کاپٹروں کی خریداری اسکینڈل کے مرکزی ملزم ملک اللہ یار کی 2000 میں وفات کے باعث نیب نے 2004 میں یہ کیس بند کردیارپورٹ کے مطابق 2015 میں نیب راولپنڈی نے ایک مرتبہ پھر قومی دولت کی وصولی کیلئے اس کیس کی تحقیقات شروع کیں، ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کرکے ثبوت اکٹھے کرنے کا آغاز کیا۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نیب نے سابق سیکرٹری کابینہ ڈویژن ہمایوں فیض، ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویڑن شکیل خان، عبدالشفیق خان، لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ واحد خان اور ضیاء پرویز حسن پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے احتساب عدالت سے ملزمان کو سزا اور قومی خزانے کی لوٹی گئی رقم وصول کرنے کی استدعا کردی ہے۔