لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) آئی ایس آئی میں پاکستانی تینوں فورسزکے افسران شامل ہوتے ہیں اوریہ ادارہ ان تین بڑے دفاعی اداروں کو خفیہ معلومات فراہم کرتاہے جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایجنسی آئی ایس آئی پاکستان کے اندرونی اور بیرونی سلامتی کے تحفظ کا ذمہ دار سمجھی جاتی ہےاس نامورایجنسی کاقیام 1948میں عمل میں لایاگیا۔روزنامہ خبریں کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے بہترین خفیہ ایجنسی کا اعزاز آئی ایس آئی کوحاصل ہے جبکہ بھارتی ایجنسی ”را“ 8ویں نمبرہے ۔
ڈی جی رینجرزلیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کوستمبر2104میں اس کاسربراہ مقررکیاگیاتھاجوکہ ابھی تک ڈی جی آئی ایس آئی کے طورپرذمہ داریاں نبھارہے ہیں لیکن اب مختلف حلقوں میں یہ خبر گرم ہے کہ کراچی کے سابق کور کمانڈر جنرل نوید مختار کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ کو کراچی کا کور کمانڈر بنادیاگیا ہے اب لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی جگہ آئی ایس آئی کے متوقع سربراہ بنائے جارہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اگر لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر تادم تحریر آئی ایس آئی کے ڈی جی ہیں تاہم وزیراعظم اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نیا آئی ایس آئی چیف مقرر کرسکتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ ابتداہی سے بری فوج کے سینئر افسران تعینات ہوتے رہے ہیں۔ موجودہ ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کو اس آسامی پر فائز ہوئے دو سال دو ماہ ہوئے ہیں اور اگر وزیراعظم چاہیں تو وہ اپنی سروس جاری بھی رکھ سکتے ہیں تاہم روایت یہ رہی ہے کہ نئے آرمی چیف بالعموم اس حساس ترین عہدے پر اپنے انتہائی قابل اعتماد لیفٹیننٹ جنرل کی تقرری کی سفارش کرتے ہیں جس پر حتمی فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہوتا ہے۔آئی ایس آئی آئین پاکستان کی رو سے وزیراعظم کے ماتحت تصور کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم تین لیفٹیننٹ جنرل حضرات کا پینل طلب کرسکتے ہیں جس میں سے وہ کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔
عام خیال یہ ہے کہ کراچی کے سبکدوش ہونے والے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا جاسکتا ہے لیکن آرمی چیف کی سفارش کو مقدم سمجھا جائے گا اور ممکن ہے کہ آرمی چیف ان کی بجائے کسی اور سینئر لیفٹیننٹ جنرل کو اس عہدے کیلئے موزوں خیال کریںلیکن آئینی طورپروزیراعظم خود فیصلہ کرنے کے مجازہیں ۔