لاہور (این این آئی ) لاہور ہائیکورٹ مسیحی خواتین کی عزت نفس کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے طلاق کیل ئے بدچلنی کے علاوہ دیگر وجوہات کوبھی جواز بنانے سے متعلق قانونی دفعہ بحال کر دی، عدالت نے 35برس قبل سابق صدر ضیاء الحق کی طرف سے مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ 7کو حذف کرنے کے لئے جاری آرڈیننس بھی غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے یہ تاریخی فیصلہ امین مسیح کی درخواست پر جاری کیا ۔ درخواست گزار کے وکیل شیراز ذکاء نے موقف اختیار کیا کہ سابق صدر ضیاء الحق نے 1971ء میں ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت مسیحی طلاق ایکٹ 1969ء کی دفعہ سات کو حذف کر دیا گیا ، جس کے بعد گزشتہ 35برسوں سے مسیحی برادری ایکٹ کی دفعہ دس کا استعمال کرنے پر مجبور ہے،دفعہ دس کے تحت طلاق کو موثر کرنے کیلئے مسیحی خاتون پر بدچلنی کا الزام لگانا اور اسے ثابت کرنا لازمی ہے ورنہ طلاق موثر نہیں ہوگی، مسیحی خواتین کو طلاق کیلئے بدچلنی کے علاوہ دوسری کوئی بھی قانون دفعہ میسر نہیں ہے، مسیحی خاتون بدچلن نہ بھی ہو پھر بھی اس پر طلاق کو موثر کرنے کیلئے یہ الزام لگانا پڑتا ہے جو مسیحی خواتین کی عزت نفس کو مجروح کرنے اور آئین پاکستان کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ دوران سماعت پنجاب حکومت کی طرف سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل انوار حسین نے عدالتی معاونت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ صوبائی حکومت نے اس معاملے پر قانون سازی کرنے کیلئے مسیحی برادری کے مختلف فرقوں کو مدعو کیا تھا تاکہ مشاورت سے متفقہ طور پر مسیحی برادری میں طلاق کے معاملے پر موثر قانون سازی کی جا سکے لیکن چرچ آف پاکستان، کیتھولک اور پریسٹبرین چرچ کی طرف کوئی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی ، مسیحی فرقوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ تاحال التواء کا شکار رہے۔بین الاقوامی سطح پر انیس سو اٹھارہ سے ہی مسیحی طلاق قانون میں قابل لچک ترامیم آنا شروع ہو گئی تھیں ، 1018ء میں روس میں اس حوالے سے ترمیم کی گئی جبکہ کینیڈا میں 1973ء میں اور آسٹریلیا میں 1975ء میں ترامیم آئیں جس کے ذریعے بغیر کسی غلطی کے طلاق موثر ہونے کی سہولت فراہم کی گئی۔وفاقی حکومت کی طرف سے سٹینڈنگ کونسل حنا حفیظ اللہ نے موقف اختیار کیا کہ بھارت میں بھی مسیحی طلاق کے حوالے سے ترامیم آ چکی ہیں، مسیحی طلاق ایکٹ ایک سو سنتالیس سالہ پرانا ہے،ایکٹ کی دفعہ 7کی زبان بہت ہی سخت ہے، عدالتی معاون اور انسانی حقوق کی رہنماء حنا جیلانی ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ مسیحی طلاق ایکٹ میں طلاق کیلئے بدچلنی کے علاوہ دیگر وجوہات نہ ہونے کی وجہ سے مسیحی خواتین کو بدترین معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، طلاق کی مہذب وجوہات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مسیحی خواتین کو اپنا مذہب تبدیل کرنا پڑا، صرف خواتین نہیں بلکہ مسیحی مرد بھی مہذب وجوہات نہ ہونے کی وجہ سے معاشرتی بے توقیری کا نشانہ بنتے ہیں۔عدالت کو چاہیے کہ وہ مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات کو نہ صرف بحال کرے بلکہ پاکستانی معاشرے اور پاکستانی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے مسیحی طلاق کے حوالے سے آئینی اور قانونی دفعات کی مزید تشریح کرے تاکہ مسیحی برادی کا مستقبل محفوط ہو سکے۔دوران سماعت تحریک انصاف کی اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی شنیلا روت نے عدالت کو بتایا کہ مسیحی طلاق کے حوالے سے مسیحی فرقوں میں ہم آہنگی نہیں ہے، ایکٹ کی دفعہ سات کو حذف کرتے وقت مسیحی برادری کے کسی نمائندے سے مشاورت نہیں کی گئی ، اس حوالے سے بل اسمبلیوں میں پڑے ہوئے ہیں مگر کبھی قانون سازی نہیں ہو سکی۔جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ 35برس گزر گئے لیکن قانون بنانے والوں کی توجہ اس مسئلے پر نہیں گئی، آئین کے تناظر میں بنیادی حقوق کی اہمیت بہت زیادہ ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اگر کسی مذہب یا مسلک میں ہم آہنگی نہیں ہے تو اس چیز کو آئین کے بنیادی حقوق پر فوقیت دیدی جائے۔ عدالت نے تفصیلی بحث سننے کے بعد مسیحی طلاق ایکٹ کی دفعہ سات کو بحال کرنے کا حکم دیدیا۔عدالت نے دفعہ سات کو حذف کرنے سے متعلق سابق صدر ضیاء کی طرف سے جاری آرڈیننس کو آئینی کی دفعہ نو اور چودہ سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔عدالت نے مزید قرار دیا کہ دفعہ سات کے بحال ہونے کے بعد مسیحی برادری پر طلاق کیلئے برطانوی قوانین بھی لاگو ہونگے اور مسیحی خواتین کو طلاق کیلئے ایسی مہذب وجوہات میسر ہونگی جس کی وجہ سے انہیں معاشرے میں بے توقیری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔