اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پچھلے پانچ سالہ آڈٹ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے ملازمین کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت،وزارت خزانہ اور اس کے ماتحت اداروں سے بجٹ ،ری ایپروپریشن کو بجٹ سٹیٹمنٹ میں شامل کرنے اور اداروں میں خالی پوسٹوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اداروں میں سٹاف کی کمی کی وجہ سے ادارے کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے ۔ نیشنل سیونگ کی طرف سے پیش کردہ بجٹ اور اس کے استعمال پر عدم تسلی کا اظہار کرتے ہوئے بہتری کی ہدایت کر دی۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت خزانہ اور اس کے ماتحت اداروں ،آڈیٹر جنرل آف پاکستان ،اے جی پی آر،سی جی اے،نیشنل سیونگ اور پاکستان منٹ کے مختص کردہ بجٹ، ریلیز ہونے والا بجٹ ،ملازمین پر خرچ کئے جانیو الے بجٹ،آپریٹنگ اخراجات،ٹرانسفر اخراجات،فزیکل اثاثے،مرمتی اخراجات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ پہلی دفعہ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹیوں کو متعلقہ وزارتوں کے بجٹ اور استعمال کے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے کہا گیا ہے۔ ہر قائمہ کمیٹی اپنی متعلقہ وزارت کے بجٹ اور اس کے استعمال کا جائزہ لے کر ایوان میں رپورٹ پیش کریگی۔سیکرٹری خزانہ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزارت خزانہ دو ڈیمانڈ 29اور33کو ڈیل کر رہا ہے۔وزارت خزانہ کی ڈیمانڈ29کے تحت1.5ارب روپے مختص کیا گئے تھے جو جنوری2016تک 65کروڑ60لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔اسمیں مین خزانہ ڈویژن،خزانہ ڈویژن ملٹری،اور3اکنامک منسٹرز کا بجٹ شامل ہے۔قائمہ کمیٹی کو مین خزانہ ڈویژن کے اخراجات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 1.2ارب روپے میں سے522ملین روپے خرچ کئے گئے۔اراکین کمیٹی نے جرمنی اور یورپین یونین میں اکنامک منسٹر لگانے کی سفارش بھی کی۔سیکرٹری خزانہ نے قائمہ کمیٹی کو ڈیمانڈ33کے حوالے سے مختص بجٹ اور استعمال بجٹ کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا۔ایڈیشنلآڈیٹر جنرل نے قائمہ کمیٹی کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے بجٹ اور استعمال کے حوالے سے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بجٹ چارجڈ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ2015-16 میں3,895 ملین کی ڈیمانڈ کی تھی اور3,803ملین روپے فراہم کئے گئے۔73فیصداخراجات ملازمین کے حوالے سے تنخواہوں ،پنشن ،ٹی اے ڈی کے معاملات پر خرچ کئے گئے جبکہ 27فیصد دیگر ہیڈز میں خرچ کئے گئے اور فروری2016تک بجٹ کا 60فیصد خرچ کیا گیا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم پی آئی اے کی خسارے کی وجہ ملازمین قرار دیتے ہیں جبکہ ان پر اخراجات بہت کم ہیں اور ان اداروں کے ملازمین کے اخراجات 70فیصد سے بہت ذیادہ ہیں۔ اور جو اخراجات کی تفصیلات قائمہ کمیٹی کو بتائی جا رہی ہیں۔وہ بجٹ کتاب سے خاصی مختلف ہیں۔ادارے ان چیزوں کا خیال کریں اور اگلے سال کیلئے بجٹ ری ایپروپریشن کوکا لم بھی ساتھ شامل کیا جائے۔ایڈیشنلآڈیٹر جنرل نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ا نکشاف کیا کہ ادارے کے کل ملازمین کی سیکشن پوسٹ5387ہے جبکہ ادارے میں کل ملازمین3707کام کر رہے ہیں۔بھرتی پر پابندی کی وجہ سے تقرریاں عمل میں نہیں لائی جا سکیں جس کی وجہ سے ادارے کو32فیصد سٹاف کم ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی واراکین کمیٹی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بے روزگاری ذیادہ ہے اور ادورں میں سٹاف کی کمی ہے جس کی وجہ سے اداروں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔بھرتی کا عمل کر کے تقرریاں کی جائیں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے میں2015-16کیلئے11790آڈٹ کرنے تھے مگر8249کئے گئے۔ا نہوں نے کہا کہ نیشنل بنک آف پاکستان نے حکم امتناہی حاصل کر رکھا ہے جسکی وجہ سے انکا آڈٹ نہیں کیا جا سکتا۔SECPکا آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور تقریباً20ادارے ہمارے ادارے سے آڈٹ نہیں کراتے ان کے آڈٹ کرانے کیلئے جائزہ لیا جا رہا ہے۔اراکین کمیٹی نے وزارت قانون سے رائے لینے کی سفارش کر دی۔رکن کمیٹی سینیٹ الیاس احمد بلور نے ملازمین کی صوبہ وائز تفصیلات کمیٹی کو فراہم کرنے کی سفارش کر دی۔کنٹرولرجنرل آف اکاؤنٹس کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہCGAگرانٹ30کے ذریعے ادارے ا ورا سکے 11فیلڈ اکاوئنٹس اداروں کے بجٹ کو ڈیل کر رہی ہیں۔جن میںAGPR،AG سندھ،AGپشاور،AGبلوچستان وغیرہ شامل ہیں۔CGAاور ان اداروں کے کل ملازمین کے لئے منظور شدہ پوسٹیں8010ہیں جن میں سے تقریبا3ہزار خالی ہیں۔CGAان اداروں کو سپر وائز کر رہا ہے AGPRاس ادارے کو جواب دہ ہے اور یہ ادارہ وزارت خزانہ کوجواب دہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ کا 82فیصد ملازمین پر خرچ ہوتا ہے ۔2015-16کیلئے4.87ارب روپے مختص کیا گیا تھا جس میں سے2.46 ارب روپے خرچ کئے گئے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی نیشنل سیونگ نے قائمہ کمیٹی کو بجٹ اور اس کے استعمال کے حوالے سے تفصیل سے آگاہ کیا تو چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیشنل سیونگ کے حکام جو بجٹ اور اخراجات کے حوالے سے تفصیلات بتا رہے ہیں وہ بجٹ کتاب سے خاصی مختلف ہے۔وزارت خزانہ ان ا داروں کے افسران کی اس حوالے سے رہنمائی و تربیت کا اہتمام کرے تاکہ ذیادہ سے ذیادہ موثر اور حقیقت پر مبنی بجٹ تیار کیا جا سکے،انہوں نے نیشنل سیونگ کی بریفنگ پر عدم اطمنیان کا اظہار بھی کیا۔اور آئندہ سال کیلئے بہتر قدامات اٹھانے کی ہدایت بھی کی۔قائمہ کمیٹی کے اجلا س میں پاکستان منٹ کے بجٹ اور اس کے استعمال کے حوالے سے بھی تفصیل سے ماسٹر آف پاکستان منٹ میں تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بجٹ507ملین روپے تھا جس میں سے 252ملین روپے خرچ کیا گیاور بجٹ کا72فیصد ملازمین کے حوالے سے خرچ کیا گیاْاور ادارے کا بجٹ ابھی تک ری ایپروپریٹ نہیں کیا گیاْ۔انہوں نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے19مارچ کوادارے کا دورہ بھی کیا تھا اور نئی مشینری کے حوالے سے اس ہفتے میٹنگ بھی کی جا رہی ہے ۔قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلا س میں سینیٹرز الیاس احمد بلور،محمد محسن خان لغاری اور مسز نزہت صادق کے علاوہ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود،سپیشل سیکرٹری خزانہ ،ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ،CGAحکام،ایڈیشنلآڈیٹر جنرل آف پاکستان ،ماسٹر آف پاکستان منٹ،ڈی جی نیشنل سیونگ کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔