لاہور(نیوزڈیسک) جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حالات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ حکومت سے علیحدہ ہوں تاہم تحفظ حقوق نسواں بل موجودہ صورتحال میں قبول نہیں ، نیب کا ادارہ ڈکٹیٹر نے انتقام لینے کے لئے بنایا تھا اگر وزیر اعظم کی سطح پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تو پھر ضرور اس کے بار ے سوچنا ہوگا،اس وقت پاکستان اور چین اقتصادی دور میں داخل ہوئے ہیں ،قوم چین کی دوستی پر فخر کرتی ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز چینی نائب وزیر خارجہ لی چونگ کی قیادت میں وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ملک کے مختلف حصوں میں عوام کی ضروریات کے مطابق سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔اقتصادی راہداری منصوبے پر ہم سب ایک ہیں ۔انہوںنے کہا کہ اس وقت پاکستان اور چین اقتصادی دور میں داخل ہوئے ہیں ، چین کے وفد نے پاکستان کے لئے اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔پاک چین دوستی کو 65سال مکمل ہوگئے ہیں اس دوران ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جس سے دوستی میں کوئی اختلاف ہو۔ہم نے واضح کیا ہے کہ قوم چین کی دوستی پر فخر کرتی ہے ۔چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں پاکستان کا معاشی مستقل روشن مستقبل سے تعبیر ہے ۔انہوںنے کہا کہ تحفظ حقوق نسواں بل میں اصلاح کی ضرورت ہے ۔یہ بل موجودہ صورتحال میں قابل قبول نہیں ۔وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں جو بھی باتیں ہوئی ہیں ۔منصورہ میں ہونے والے تمام دینی جماعتوں اجلاس میں قائدین کو آگاہ کروں گی ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب محرم کا مہینہ آتا ہے تو قوم کو پہلے 10دن جس ذہنی قرب سے گزرنا پڑتا ہے وہ سب کو علم ہے ۔اسی طرح 12ربیع الاول کو بھی صورتحال سب کے سامنے ہیں ۔ان حالات میں بعض اوقات حادثات ہوتے ہیں،نفرت پیدا ہوتی ہے ۔اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے کہ کوئی شخص کسی کے مذہبی تہوار منانے سے متاثر نہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں تشدد کے رحجانات زیادہ ہیں اس پر بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔حکومت سے علیحدگی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حالات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ حکومت سے علیحدہ ہوں ۔ جب مسئلہ حل نہیں ہوتا اور راستہ نہیں نکلتا تو پھر حکومت سے الگ ہونے کی کی بات زیر بحث آتی ہے۔نیب کا ادارہ ڈکٹیٹر نے انتقام لینے کے لئے بنایا تھا اگر وزیر اعظم کی سطح پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تو پھر ضرور اس کے بار ے سوچنا ہوگا۔