بدھ‬‮ ، 12 مارچ‬‮ 2025 

’’را‘‘ سے فنڈنگ، ایم کیوایم کیخلاف کسی حکومت یا ایجنسی نے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی

datetime 14  مارچ‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد () وزیرداخلہ چوہدر نثار علی خان متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اورپارٹی کے دیگررہنمائوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے فنڈنگ اور تربیت لینے کے الزامات کومنطقی انجام تک پہنچنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ جب سے برطانوی حکام نے منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس پرانتہائی سست رفتاری کا مظاہرہ شروع کیا ہے، اس پر شکوک و شبہات بڑھتے جارہے ہیں۔ وزیرداخلہ پاکستان میں اس معاملے پر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ برطانوی حکام کی طرف سے ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کی تحقیقات پر پیش رفت سے تنگ آکر چوہدری نثارنے اس کیس میں گرفتار مشتبہ افراد کے خلاف پہلے ہی کیس رجسٹرکرالیا ہے۔ یہ اب عدالت میں زیرسماعت ہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے ان مشتبہ افراد کو حاصل کرنے کے لئے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حکومت پاکستان نے بھی یہ شکایت کی کہ قتل کے اس کیس کی تفتیش کے سلسلے میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ اگرچہ گزشتہ کئی سال سے ایم کیو ایم پر ’’را‘‘ سے فنڈ لینے کے الزامات لگتے رہے ہیں مگر وفاق یا سندھ حکومت یا دوسری کسی ایجنسی کی طرف سے اس معاملے کی چھان بین کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ممکن ہے حکام کی طرف سے ایسی کوئی پالیسی بنائی گئی ہو مگروہ ان الزامات کوعدالت میں ثابت کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ ٹھوس قانونی کارروائی کی عدم موجودگی میں مخالف سیاست دان ایم کیو ایم پر ان الزامات کو دہرایا کرتے تھے۔ بعد ازاں ایم کیو ایم کے باغی رہنما مصطفیٰ کمال نے بیرون ملک سے پاکستان واپسی پربھرپور طور پر ’’را‘‘ سے فنڈ اور تربیت لینے کے الزامات کو بار بار دہرایا۔ ابتداء میں وزیر داخلہ نے الزامات کو کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ ایم کیو ایم کے منحرف رہنما نے اپنے دعوئوں کے حق میں وفاقی حکومت کو کوئی بھی معلومات دینے سے انکارکردیا تھا مگر اب ایم کیو ایم کے خلاف الزامات کی گہرائی میں جاکر تحقیقات کے سلسلے میں چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پرایف آئی اے کی ایک ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ قبل ازیں وزیر داخلہ کئی سینئر سیاستدانوں کی طرف سے مصطفیٰ کمال کے الزامات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ مسترد کرچکے ہیں۔ وزیر داخلہ بلاتاخیر ایک نتیجہ خیز تحقیقات چاہتے ہیں۔ انکوائری ٹیم کے ایک رکن نے مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر صغیر احمد سے ملاقات کی ہے جبکہ دوسرے ممبر نے الطاف حسین اور دیگرکے خلاف منی لانڈرنگ کی ٹھوس تفصیلات کے لئے لندن میں مقیم سرفراز مرچنٹ سے رابطہ قائم کیا ہے۔ ایف آئی اے نے سرفراز مرچنٹ سے پاکستان آکر اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا کہا ہے۔ لگتا ہے وہ پاکستان آنے کے خواہاں نہیں۔ حالانکہ قبل ازیں ان کا بیان تھا کہ وہ کسی بھی ایجنسی کو معلومات دینے کے لئے پاکستان جانے سے گریز نہیں کریں گے۔ اگر انہوں نے پاکستان نہ آنے کا حتمی فیصلہ کرلیا تو ایف آئی اے ٹیم ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ان کا بیان ریکارڈ کرسکتی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک وزیر داخلہ نے نہ صرف منحرف رہنمائوں کے الزامات کا نوٹس لیا ہے بلکہ معاملے کی جانچنے کے لئے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے تاکہ اگرتحقیقات کے نتیجے میں ٹھوس معلومات ملتی ہیں تو قانونی کارروائی کی جاسکے یا خاطر خواہ معلومات نہ ملیں تو اس باب کو بند کردیا جائے۔ ایم کیو ایم کے خلاف 1992ء میں فوجی آپریشن کے دوران بطور بریگیڈیئر خدمات انجام دینے والے آصف ہارون نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کے دوران انہوں نے ایم کیو ایم کے دفاتر سے جناح پور کے نقشے برآمد کئے تھے مگر نہ اس وقت کی حکومت اور نہ ہی بعد میں آنے والی کسی دوسری حکومت نے کسی ایجنسی یا قانون کی کسی عدالت میں معاملے کی چھان بین کے لئے ایم کیو ایم کے خلاف کوئی مقدمہ درج کرایا۔ اس سے پاکستان مخالف سنگین الزام پر ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چند ماہ قبل کراچی کے سینئر پولیس افسر رائو انورنے ایم کیو ایم کے کچھ کارکنوں کو میڈیا کے سامنے پیش کیا تھا جن کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے ان کارکنوں نے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے بھارت سے تربیت حاصل کی تھی۔ ایم کیو ایم کے دیگر رہنمائوں کی طرح مطصفیٰ کمال، انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیراحمد اور افتخار عالم بڑی دلیری سے اپنی پارٹی کا دفاع اور ’’را‘‘ سے فنڈ لینے اور منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم سے علیحدگی کے بعد اب وہ تمام الزامات لگا رہے ہیں جو ایم کیو ایم کے مخالفین طویل عرصے سے لگاتے رہے ہیں۔ جنگ طارق بٹ حسن کے مطابق
ایم کیو ایم کے سینئر رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار نے مختلف اطراف سے شدید دبائو بشمول کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو دیکھ کرغیرمبہم الفاظ میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ ممکن ہے 1992ء میں فوجی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان مختلف ممالک کو روانہ ہوئے تھے، ان میں سے کچھ بھارت چلے گئے ہوں تاہم انہوں نے یہ اصرار بھی کیاکہ وہ لوگ جو بھارت عسکری تربیت لینے یا فنڈنگ کے لئے گئے ہیں ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟


میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس…

تیسری عالمی جنگ تیار

سرونٹ آف دی پیپل کا پہلا سیزن 2015ء میں یوکرائن…

آپ کی تھوڑی سی مہربانی

اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں…

وزیراعظم

میں نے زندگی میں اس سے مہنگا کپڑا نہیں دیکھا تھا‘…

نارمل ملک

حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ…

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…

بخارا کا آدھا چاند

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…