اسلام آباد (نیوز ڈیسک)مذہبی جماعتوں نے پنجاب اسمبلی سے منظور کر دہ حالیہ تحفظ حقوق نسواں بل کو آئین سے متصادم اور ممتاز قادر ی کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کا بڑااجتماع پندرہ مارچ کو جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں طلب کرلیا ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ پھانسی دینے کا عمل بد نیتی پر مبنی ہے ٗ سزا دیکر توہین رسالت کے تحفظ کیلئے موجودہ قانون کو ختم کر نے کی راہ ہموار کی جارہی ہے ٗ پوری عوامی قوت کے ساتھ پاکستان کے نظریاتی تشخص کی حفاظت کیلئے نکلیں گے ٗ حکومت میں رہتے ہوئے بھی کئی چیزوں کی مخالفت کرینگے ٗ یہ روایت ختم ہو نی چاہیے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے معاملات پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہفتہ کو جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر مذہبی جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں مولانا اویس انس نورانی ٗ سراج الحق ٗ صاحبزادہ ابو الخیر زبیر ٗ وزیر ہاؤسنگ اکرم خان درانی ٗمولانا حسین احمد شیعہ علماء کونسل اور وحدت مسلمین کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ۔اجلاس میں پنجاب اسمبلی سے منظور کر دہ تحفظ حقوق نسواں بل اورممتاز قادری کی پھانسی اور پھانسی کے بعد کی صورتحال سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال کیا گیا ۔اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اجلاس کے دور ان ملک کی موجودہ صورتحال اور ملک میں ہونے والے واقعات پر غور کیا گیا انہوں نے بتایا کہ تمام جماعتوں کے رہنماؤں کا اتفاق تھا کہ ممتاز قادری کی پھانسی کی سزا عدالتی قتل ہے ۔انہوں نے کہاکہ پھانسی دینے کا عمل بد نیتی پر مبنی ہے سزا دیکر توہین رسالت کے تحفظ کیلئے موجودہ قانون کو ختم کر نے کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ سابق ادوار میں بھی ایسی کوششیں ہوئی ہیں اور یہ بھی اسی کا تسلسل ہے۔پنجاب اسمبلی سے حالیہ منظور کئے گئے تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ مذہبی جماعتوں کی متفقہ رائے ہے کہ گھریلو تشدد اور جارحانہ روئیوں کے خاتمے کیلئے قانون سازی کا خیر مقدم کرتے ہیں تاہم تحفظ نسواں قانون میں موجودہ شقیں معاشرتی نظام کو تباہ کردیں گی ایسی شقوں کو بل میں ڈالنا معاشرتی ناانصافی ہے ۔مولانافضل الرحمن نے کہاکہ معاشرتی اقدار کو پامال کر نے کا اسلامی ملک میں تصور نہیں ہے اور یہ آئین سے بھی متصادم ہے ۔انہوں نے کہاکہ ان معاملات پر وسیع تر موقف اپنانے کیلئے تمام مذہبی جماعتوں کا بڑااجتماع پندرہ مارچ کو لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں طلب کیا گیا ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ مذہبی جماعتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ہم پوری عوامی قوت کے ساتھ پاکستان کے نظریاتی تشخص کی حفاظت کیلئے نکلیں گے ٗ ناموس رسالت ؐکیلئے میدان میں آئینگے اور لاہورکے اجتماع میں اس پر وسیع مشاورت ہوگی ۔انہوں نے کہاکہ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد میڈیا نے جس طریقے سے جنازہ کا بلیک آؤٹ کیا تو ہم اس کو جانبدارانہ رویہ سمجھتے ہیں اور مذہبی جماعتوں نے اس پرتشویش کا اظہار بھی کیا ۔اس موقع پر جب صحافیوں نے مولانا فضل الرحمن سے کہاکہ یہ فیصلہ پیمرا کا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے فوری طورپر کہاکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ پیمرا اور مالکان کا فیصلہ تھا اور ان کا عام صحافیوں سے کوئی گلہ نہیں ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ پیمرا کو کس نے کہا ۔اس سوال پر کہ جمعیت علمائے اسلام مسلم لیگ (ن)کی حکومت میں شامل ہے اور اس کے باوجود بھی حکومتی اقدامات کی مخالفت ہورہی ہے تو مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی کئی چیزوں کی مخالفت کرینگے حکومت سے باہر بھی مخالفت کر ینگے یہ روایت ختم ہو نی چاہیے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے معاملات پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمن نے براہ راست جواب نہیں دیا بلکہ کہاکہ ہم سب نے وحدت کی طرف جانا ہے جس کی اسوقت ضرورت بھی ہے انہوں نے کہاکہ ممتاز قادری کی پھانسی اور پنجاب اسمبلی سے تحفظ حقوق نسواں کا قانون دو شب خون تھے ۔