کراچی(نیوز ڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں خوف خدا کا فقدان ہے اور سچ و جھوٹ، حلال وحرام کا فرق ختم ہوچکا ہے ٗتنازعات کے حل کے لیے دیہی علاقوں میں بھی نظام موجود ہونا چاہیے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں خوف خدا کا فقدان ہے عدالتی احکامات پر عمل کرنے کے بجائے بچنے کا سہارا لیا جاتا ہے، سچ اور جھوٹ اور حرام و حلال کا فرق ختم ہوچکا ہے ۔ مقتول کی ماں اور بیٹی تو عدالتوں میں بیان دیتی ہیں لیکن گواہ منحرف ہوجاتے ہیں، عدالت میں بتایا جاتا ہے کہ انتظامی مشینری ان کے خلاف کارفرما ہے۔ پیچیدہ طریقہ کار کے باعث مقدمات التوا کا شکار ہیں، مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے باعث ہی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ تنازعات کے حل کے لئے صرف شہری علاقوں میں اقدامات کئے جاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں فیصلے جرگے کے ذریعے کئے جاتے ہیں جو درست نہیں ہوتے۔ تنازعات کے حل کے لیے دیہی علاقوں میں بھی نظام موجود ہونا چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے ملک میں مروجہ عدالتی نظام میں کوئی خرابی نہیں یہ بہترین اور آزمودہ نظام ہے جس کی دوسرے ممالک بھی تقلید کرتے ہیں، پاکستان میں عدلیہ آزادی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے ۔ موجودہ عدالتی نظام پر بے جا تنقید غیر مناسب ہے صرف عدالتی احکامات پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے قانون متعارف کروائے جائیں جومقدمات کے تصفیے کیلئے حل فراہم کریں تنازعات کے متبادل مراکز میں افرادی قوت بڑھائی جائے۔ دنیا بھر میں تنازعات کے حل کیلئے متبادل نظام موجود ہے۔ جوڈیشل کمیشن نے بھی انصاف کے متبادل نظام کی فراہمی کے لئے تجویز دی تھی ٗ دیہی علاقوں میں انصاف کے متبادل ادارے قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔فوری انصاف کی فراہمی کے لئے مراکز قائم کئے جائیں کیوں کہ بروقت تنازعات حل نہ ہونے کے باعث ہی واقعات سنگینی میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور غیر روایتی طریقہ اپنا لیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین کو قانونی مدد فراہم کیا جانا قابل تحسین ہے،سرمایہ کاروں کو پاکستان میں پرامن اور سازگار ماحول فراہم کیا جائے جو وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا تنازعات کے حل کے لئے مثبت کردار ادا کرے۔