اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نیب کی سینئر انتظامیہ نے تمام متعلقہ ڈائریکٹر جنرلز کو ہدایت دی ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کیخلاف مقدمات سمیت تمام ہائی پروفائل کیسوں کی تحقیقات کے معاملے میں زیادہ احتیاط سے کام لیں اور اس کے بعد ہی ان کیسز کی قسمت کا فیصلہ کریں۔ نیب کے اعلیٰ سطح کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ان ہائی پروفائل مقدمات میں ریکارڈ اور شواہد کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ملنے والے سوالات پر بحث و مباحثے بھی کیے جا رہے ہیں تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث قرار دیئے گئے ملزمان کیخلاف موجود یہ کیس مقدمہ چلانے کے قابل ہیں یا انہیں بند کر دیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود بھی دیکھا جائے تو گزشتہ سال اختیار کی گئی نیب کی حکمت عملی کے تحت تمام زیر التواء مقدمات کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بیورو ان ہائی پروفائل مقدمات کی قسمت کا فیصلہ کسی بھی خوف اور کسی کو رعایت دیئے بغیر کرے گا۔ ہائی پروفائل اور میگا کرپشن اسکینڈلز کے مقدمات کی قسمت کے فیصلے کیلئے طے شدہ ڈیڈلائن میں توسیع کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ذرائع کا کہنا تھا کہ ایسا صرف اسلئے کیا جا رہا ہے کہ متعلقہ حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ مقدمات کی جانچ پڑتال اچھی طرح اور احتیاط سے کریں اور اس کے بعد ہی مقدمات کی قسمت کا فیصلہ کریں۔ نیب کو احساس ہے کہ مقدمہ چلانے کیلئے بیورو کو ایسے شواہد کی ضرورت ہے جن کی مدد سے عدالت کو آمادہ کیا جا سکے کہ ملزم پر فرد جرم عائد کی جائے۔ بیورو یہ بھی سمجھتا ہے کہ ہائی پروفائل کیسوں میں تحقیقات بند کرنے اور ملزم کو الزامات سے بری کرنے (کلین چٹ دینے) کیلئے بھی ٹھوس وجوہات کی ضرورت ہوگی۔ لیکن بیورو میں ایک بات سب پر واضح کی جا چکی ہے کہ ماضی کی طرح طویل عرصہ تک مقدمات زیر التواء رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نیب نے پہلے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف ہائی پروفائل مقدمات کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے 31؍ دسمبر 2015ء کی تاریخ طے کی تھی لیکن اب ادارے کو 31؍ مارچ 2016ء تک تحقیقات مکمل کرنا ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دو علیحدہ تحقیقات جاری ہیں۔ ایک کیس میں وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر پر رائیونڈ سے جاتی امرا کے شریف خاندان کے گھر تک سڑک تعمیر کرنے کیلئے اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق یہ کیس نیب میں 2000ء سے زیر التوا ہے اور اس میں ساڑھے 12 کروڑ روپے کی خرد برد کا الزام ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 1999ء سے ایک اور کیس زیر التوا ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیاں کیں۔ شریف برادران کیخلاف یہ انوسٹی گیشن ان بڑے کرپشن اسکینڈلز کا حصہ ہیں جن کی تفصیلات نیب سپریم کورٹ میں گزشتہ سال پیش کر چکا ہے۔ شریف برادران کے علاوہ دیگر حکمرانوں میں اسحاق ڈار کیخلاف بھی ایک کیس میگا کرپشن اسکینڈلز کی فہرست میں شامل ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے معاملے میں نیب کی جانب سے تحقیقات کیلئے مقرر کی جانے والی ڈیڈلائن 15 دسمبر 2015ء تھی لیکن بعد میں نئی ڈیڈلائن 29 فروری 2016ء مقرر کی گئی تھی۔ نیب ذرائع کے مطابق، نیب کی سینئر انتظامیہ کو معتلقہ ڈی جی کی جانب سے وزیر خزانہ کیخلاف کیس کا فیصلہ کرنے کے متعلق نہیں بتایا گیا۔ ان کے خلاف نیب کے پاس تحقیقات 2000ء سے زیر التوا ہے۔ ان پر ذرائع سے زیادہ اثاثے ہونے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔ کچھ دیگر ہائی پروفائل کیسز جن میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کیخلاف مقدمات کا فیصلہ مارچ کے آخر تک مکمل ہوجائے گا۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے معاملے میں بھی نیب اختیارات کے ناجائز استعمال اور ذرائع سے زیادہ اثاثے ہونے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ گجرات کے چوہدریوں کے خلاف مقدمات 2000ء میں ان کے اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے قبل کے ہیں۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور دیگر کے خلاف جاری تحقیقات کیلئے بھی مقرر کی گئی ہے۔ ان پر رینٹل پاور پروجیکٹ کا ٹھیکہ دینے کیلئے اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔ راجہ پرویز اشرف اور شوکت ترین کے خلاف نیب میں سپریم کورٹ کی طرف سے کرائی جانے والی رینٹل پاور پروجیکٹ کیس میں بھی تحقیقات جاری ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کیخلاف ایک اور انکوائری سوہاوا سے چکوال اور مندرا سے گوجر خان تک ڈبل روڈ بنانے کے معاملے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے متعلق ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل اسکول جدہ کی سابق پرنسپل سینیٹر سحر کامران اور دیگر کے خلاف اسکول فنڈز میں خرد برد کی تحقیقات بھی جاری ہیں جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی، بلوچستان کے سابق وزیر برائے صنعت و تجارت عبدالغفور لہڑی اور پیپلز پارٹی کی سابق وزیر فردوس عاشق اعوان اور دیگر کیخلاف بھی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔