کراچی (نیوزڈیسک) کراچی کی بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری میں لگنے والی آگ منظم دہشت گردی تھی۔ پنجاب فارنزک لیب نے آگ آتش گیر مادہ سے لگنے کی تصدیق کی ہے۔ فرنیشنگ ڈیپارٹمنٹ کے انچارج زبیر نے فیکٹری میں آگ لگائی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق سانحہ کے بعد سیاسی جماعت کی جانب سے فیکٹری مالکان پر دباﺅ برقرار رکھا گیا۔ مالکان کی ضمانت کے بعد سیاسی جماعت کی جانب سے شدید دباﺅ ڈالا گیا۔ فیکٹری مالکان نے دباﺅ کے باعث معاملہ طے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مالکان نے ایک دوست کے ذریعے ایم کیو ایم کے اس وقت کے مرکزی رہنما انیس حسین قائم خانی کے قریبی ساتھی محمد علی حسن سے رابطہ کیا۔ مالکان اور سیاسی جماعت میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کو معاوضہ دینے پر معاملہ طے ہوا۔ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے متاثرین کو 5 کروڑ 98 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مالکان نے حیدرآباد میں صدیق حسن قادری کے اکاﺅنٹ میں پیسے جمع کرائے۔ تاجر قادر حسن نے بتایا کہ پیسے انیس قائم خانی کو بھیج دیئے گئے ہیں۔ تمام پیسہ حسن قادر اور انیس قائم خانی کے لے پالک بیٹے ڈاکٹر عبدالستار کے پاس ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانچ کروڑ روپے سے حیدرآباد میں ایک ہزار گز کا پلاٹ خریدار گیا۔ رپورٹ میں سرکار کی طرف سے درج پرانی ایف آئی آر واپس لینے کی سفارش کی گئی ہے اور پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ مقدمہ میں رحمان گولا، حماد صدیقی، زبیر سمیت دیگر ملزمان کو شامل کیا جائے اور مفرور ملزمان کو واپس لایا جائے جبکہ تمام ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کرکے نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔