کراچی(نیوزڈیسک) سندھ اور وفاقی حکومتوں کے درمیان حتمی معرکہ آرائی کے نتائج سے قطع نظر حقیقت یہی ہے کہ سن رسیدہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ ایک بے بس کپتان اور صوبے کے بے اختیار منتظم اعلیٰ ہیں۔ جب بات’’کراچی آپریشن‘‘ کی ہو تو کم از کم وہ آپریشن پر اختیار کو چیلنج کرنے کے حوالے سے رینجرز اوروفاقی حکومت کے خلاف آواز تو بلند کرتے ہیں۔ لیکن جب بات صوبائی حکومت کے امور چلانے سے متعلق ہو تو وہ چب سادھ لےکر ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح مرکز کی جانب سے مداخلت کی بات ہو تو یہ سندھ پر حملہ قرار پاتا ہے لیکن وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تو وہ آزادانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہوتے۔ کوئی عجب نہیں ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد انہوں نےدبئی کے جو اتنےدورے کئے۔ اب تو معاملات بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ رینجرز کے اختیارات محدود کئے جانے پر سندھ اور وفاق میں تازہ تنازع نے کپتان کو اپنے اختیارات اور وفاقی حکومت کی پوزیشن کے حوالے سے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ بچنا بھی چاہیں تو انہیں سیاسی شہید بننے کے لئے کہا جائے گا۔ قائم علی شاہ ایک پکے جیالے ہیں، اپنے آٹھ سالہ دورِ وزارت اعلیٰ اور بےنظیر بھٹو کے دور کے ڈیڑھ سال میں ان کا ریکارڈ شفاف رہا ہے۔ انہیں پہلے کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب وہ یہاں سے کہاں جائیں؟ وزیراعلیٰ کے اختیار میں اقتدار کے لئے جدوجہد کا جہاں تک تعلق ہے تو وزیراعلیٰ گریڈ 21 میں افسر اپنی بیٹی کو مناسب عہدہ نہیں دے سکے۔ وہ گریڈ ۔ 20 میں سیکرٹری کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں، ان کے داماد کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں اور قائم علی شاہ نے ان کی بھی ناجائز حمایت کی اور نہ فائدہ پہنچایا۔ اس بات کا کریڈٹ تو ان کو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم سے لے کر آرمی چیف اور ان سے کور کمانڈر سے لے کر رینجرز سربراہ تک کرپشن کے کئی سوالیہ نشانات ہونے کے باوجود حکومت چلانے پر ان کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ کپتان کے خلاف نہیں ہے۔ ایسے انسان کی مشکل یہ ہے کہ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ لوگوں کا دفاع اور کچھ افسروں کو بچانا پڑتا ہے۔ چاہے یہ فشریز کا معاملہ ہو یا چائنا کٹنگ کا مسئلہ اور چاہے یہ منظور کاکا کا کیس ہو یا نثار مورائی کا۔ لہٰذا اگر کوئی خلاف میں اٹھتا ہے تو بڑی دھماکہ خیز کیفیت ہو گی۔ لیکن ’’انتخاب‘‘ اور تبدیلیوں میں مشکل ہی سے کوئی حد ہونے کے قطع نظر کپتان ہی اپنی ٹیم کی کارکردگی کے ذمہ دار ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے سب سے بڑے مخالف ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا۔ صرف ’’ربراسٹیمپ‘‘ کہنے پر ہی اکتفا کیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس جاری کراچی آپریشن کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں انہیں مختلف حلقوں کی جانب سے دبائو کا سامنا ہے۔ لیکن کپتان کی بڑی مشکل ان کے آپریشنل ساتھی نہیں بلکہ بیرون ملک بیٹھے پارٹی باسز ہیں۔ لہٰذا وزیراعلیٰ دونوں کپتان اور منتظم کی حیثیت سے اپنی رٹ قائم رکھنے کیلئے کھلا ہاتھ چاہتے ہیں۔ کپتان قائم علی شاہ اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات کے 24 گھنٹوں کے اندر ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں جو کچھ ہوا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’عدم مداخلت‘‘ پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ پولیس رپورٹ نے ڈاکٹر عاصم حسین کو دہشت گردی کے الزامات سے بری کیا۔ رینجرز کو عدالت سے ریلیف مل گیا۔ ایک اور پیش رفت کے تحت ایف آئی اے نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے بازیاب ہزاروں فائلیں نیب کو منتقل کر دیں۔ جس کی ایف آئی اے ذرائع نے تصدیق کی ہے۔ لہٰذا جب قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ نہیں معلوم کپتان کہاں گم ہو گیا؟ اس سے ان کی اپنی آپریشنل کے ساتھ سیاسی ٹیم سے بھی مایوسی کا اظہار ہوتا ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال کے عرصہ میں وزیراعلیٰ کو سیکرٹری تبدیل کرنے کا بھی اختیار نہیں رہا۔ وہ اپنی مرضی اور خواہش سے تبادلے اور نہ ہی کابینہ میں ردو بدل کی پوزیشن میں ہیں۔ وزارت تعلیم میں تنازع جہاں پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما سیکرٹری کی تبدیلی تک وزارت لینے سے انکار کیا لیکن اس جنگ میں لیڈر شکست کھا گیا ۔وزارت داخلہ سمیت بھی کئی کیسز ہیں جنہیں وہ بحال رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن ناکام رہے۔ وزیراعلیٰ کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا کہ بعض معاملات میں احکامات براہ راست باہر بیٹھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے آتے ہیں اور بعض اوقات انہیں محض پوسٹ مین کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری، اس سے قبل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر رینجرز اور ایف آئی اے کے چھاپوں کے تناظر میں کراچی آپریشن میں جاری کشمکش کو سمجھنا مشکل نہ ہو گا۔ رینجرز اور ایف آئی اے دونوں نے فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی سمیت چھاپوں پر کپتان کی جانب سے استفسار پر جواب دیا۔ لیکن یہ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری تھی جس پر دبئی میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا بے ساختہ ردعمل آیا۔ جبکہ کپتان کا پہلا ردعمل مذمتی نہیں تھا لیکن انہوں نے صرف تشویش کا اظہار کیا کہ پہلے آپریشنل اتھارٹی کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا۔ دبئی کا ردعمل تو سمجھ میں آتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین شاہ صاحب کی یقین دہانی پر واپس آئے تھے کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے انٹیلی جنس رپورٹ اور اپنے رابطوں کی بنیاد پر گرین سگنل دیا تھا۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد انہیں زیادہ تشویش اس بات پر تھی کہ اداروں نے کابینہ میں ان کے ساتھیوں اور حکام کے بارے میں ان سے رپورٹ چھپائی۔ وزیراعلیٰ نے یہ نکتہ ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی اٹھایا۔روزنامہ جنگ کے صحافی مظہرعباس کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ پارٹی رہنما کی گرفتاری کے بعد وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ سے دبئی میں بیٹھی قیادت نے وضاحت طلب کی کہ وہ عاصم حسین کو تحفظ کیوں فراہم نہیں کر سکے۔ رینجرز نے بھی اپنی جانب سے بڑی غلطیاں کیں۔ بڑے کیسز کی زمینی حقائق سے بڑھ تشہیر کی گئی۔ اگر آپ جے آئی ٹی رپورٹس پر نظر ڈالیں تو شہادتوں کے ناکافی ہونے کی بنیاد پر تفتیش پر سوال اٹھانا مشکل نہ ہوگا۔ گزشتہ 7ماہ سے حکام سانحہ بلدیہ ٹائون کی اصل وجہ تک نہیں پہنچ سکے جس میں گارمنٹ فیکٹری کے 200سے زائد کارکن زندہ جل گئے تھے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف دہشت گردی میں مالی معاونت کا الزام کیسے ثابت ہو گا؟ یہ بھی ایک چیلنج ہے۔ایم کیو ایم اور کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی بڑی تعداد میں مقدمات ہیں جن کی جے آئی ٹی رپورٹس بریکنگ نیوز کے لئے تو اچھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن جب بات ثبوت اور شہادتوں کی آتی ہے تو سنگین سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا مسئلہ تفتیش کے ساتھ استغاثے کا بھی ہے۔ لیکن آپریشن کے کپتان کیلئے ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس فیصلہ کن ہے۔ آصف زرداری کا خوف یا خدشہ سابق وزیر پٹرولیم تک محدود نہیں بلکہ اس کے بعد ہونے والی انکوائریز پریشانی کاباعث ہیں۔ اپنے حالیہ دورئہ سعودی عرب میں آصف زرداری نے اپنے بارے میں یہ تاثر مٹانے کی کوشش کی کہ انہیں وطن واپسی پر گرفتاری کا خدشہ ہے۔ لیکن زمینی حقائق بڑے مختلف ہیں۔ وہ 27دسمبر کو اپنی اہلیہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی آٹھویں برسی میں شرکت کے لئے وطن واپسی کے فیصلے سے قبل حالات کا قریبی جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے قریبی معاون ڈاکٹر عاصم حسین نے پہلی بار اپنے نیم سیاسی کیریئر میں مکمل سیاستدان بننے کی کوشش کی۔ بلاشبہ سخت بیان جاری اور الزامات سے انکار کیا۔ رینجرز اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ کہہ کر پریشان کن پوزیشن میں لاکھڑا کیا کہ وہ کسی اور کی جگہ انہیں سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ آصف زرداری اور اسٹیبلشمنٹ میں محاذ آرائی کی جانب بالواسطہ اشارہ تھا۔ لیکن آگے بھی ان کے لئے مسائل ہیں۔ جیل بھیج دیئے جانے پر انہوں نے سکون کا سانس لیا ہو گا گو کہ انہیں نیب کی جانب سے تحقیقات کا سامنا رہے گا۔ جہاں تک وزیراعلیٰ اور کپتان کا تعلق ہے۔ شاہ صاحب کے پاس ایک موقع ہے کہ یا تو پورا اور دیگر کا اضافی بوجھ بھی اپنے سر لے لیں یا پھر باعزت طریقے سے صاف ریکارڈ کے ساتھ وزارت اعلیٰ چھوڑ دیں۔ ایسی صورت میں جب سیاسی باس غیر مشروط طریقے سے منتظم اعلیٰ کے مکمل اختیارات انہیں تفویض نہ کریں۔