کراچی (نیوز ڈیسک) جب کراچی نے 60ءکے عشرے میں صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دیا تو اس کو ”اپوزیشن کا شہر“ قرار دیدیا گیا، مگرآنے والے انتخابات میں ووٹنگ ٹرینڈ بدلتا رہا لیکن باقاعدہ نہیں، کیا اس بار 5 دسمبر کو یہ اپنا رجحان تبدیل کرکے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اتحاد کو ووٹ دینگے یا ایم کیوایم پر ہی اعتماد کا اظہار کرینگے؟ ایم کیو ایم عام اور بلدیاتی انتخابات جیتنے کا ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔جنگ رپورٹر مظہر عباس کے مطابق کراچی میں ایوب کی شکست کے بعد اس شہر نے ایوب کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک کا ساتھ دیا لیکن 1977ء میں اسی شہر نے قومی اتحاد کی طاقتور تحریک کا ساتھ دیکر بھٹو کو اقتدار سے باہر کردیا لیکن اس کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ کردار میں رفتہ رفتہ تبدیلی ہوئی، حکمرانوں کے خلاف ووٹ دینے کے سبب شہر قائد نے بہت نقصان اٹھایا۔ اس میگا سٹی کے موجودہ معاملات کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہوگا اور کس طرح اس کا سیاسی کردار تباہ کیا گیا۔ 1970ءکے عام انتخابات میں کراچی نے مذہبی جماعتوں اور پی پی کے لئے منقسم مینڈیٹ دیا، پی پی نے شہر سے قومی اسمبلی کی 2? اور صوبائی اسمبلی کی 8 نشستیں جیتیں مگر اپنی پوزیشن بہترنہیں کرسکی جبکہ جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کا ووٹ بینک کم یا ختم ہوگیا۔ کراچی نے 1987ء میں پہلی بار ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخاباتمیں ووٹ دیا تھا، یہ رجحان بہرحال اب تک برقرار ہے اگرچہ درمیان میں بعض دیگر جماعتیں راستہ بناتی رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹنگ کا یہ رجحان 80ءکے بعد کی سیاست میں شہر میں برقرار رہا جو لسانی مسئلے اور دیہی شہری مسئلے کے باعث پولرائزڈ سیاست کے گرد گھومتا رہا۔ یہ 1972ء تھا جب اس وقت کی حزب اختلاف جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے سندھی لینگویج بل کی مخالفت کا فیصلہ کیا۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ اس پیشرفت نے ایم کیوایم کی بنیاد رکھ دی کیونکہ کوٹہ سسٹم اور مہا جروں کے ساتھ ناانصافی جیسے مسائل کو پہلے پہل مذہبی جماعتوں نے اٹھایا۔ شہر نے 1977ئ میں بھٹو حکومت کے خلاف ردعمل ظاہر کیا اور کراچی پی این اے کی تحریک کا مرکز بن گیا اس تحریک کے نتیجہ میں بھٹو حکومت ختم اور ملک پر مارشل لاء مسلط ہوگیا تاہم جنرل ضیاء الحق کو اس وقت حیرانی و پریشانی ہوئی جب پی پی نے پہلے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات جیت لئے اور اس کے عوام دوست امیدوار بڑی تعداد میں منتخب ہوگئے۔ کراچی نے اپنا اپوزیشن کا کردار برقرار رکھا مگر بھٹو کی پالیسی کے باعث ایم ا?ر ڈی تحریک کا ساتھ نہیں دیا لیکن 1984ء میں ضیائ کے ریفرنڈم میں بھی حصہ نہیں لیا اور کراچی سے بمشکل دو فیصد ووٹ ہی ڈالے جاسکے۔ 1985ء کے انتخابات میں پہلی بار جماعت اسلامی کو احساس ہوا کہ جنرل ضیاء کی حمایت کے اس کے فیصلے کو عوام نے مسترد کردیا اور اس کے کئی سینئر رہنما آزاد یا جماعت مخالف امیدواروں سے ہار گئے، ایم کیوایم ابھی نہیں آئی تھی مگر تبدیلی کا رجحان واضح تھا کہ شہر نے مذہبی جماعتوں کو مسترد کردیا، یہ قومی دھارے کی لسانی سیاست کا آغاز تھا۔ بڑی تبدیلی آئی اور کراچی نے عام اور بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوایم کو ووٹ دیا یہ رجحان کم یا زیادہ قائم رہا تاہم 2002ءاور 2013ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کیلئے مشکل صورتحال رہی، 2001ء میں ایم کیوایم نے بڑی غلطی کی اور بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور جماعت اسلامی کو اپنی پوزیشن بحال کرنے کا موقع دے دیا، 2002ءمیں نتیجہ سامنے آگیا جب جماعت اسلامی کی زیر سربراہی اتحاد متحدہ مجلس عمل نے کراچی کی نصف کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لیں، جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی کا اپوزیشن کا کردار تبدیل ہوا جب ایم کیوایم کے ساتھ مفاہمت طے پاگئی آرمی سے رینجرز تک آپریشن سےنجات ملی اور 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی پوزیشن پھر حاصل کرلی، کراچی نے ایوب اور بھٹو دور میں اپنے اپوزیشن کردار کا مزہ چکھا تاہم 1977ء کے بعد اس کا یہ کردار بدلا، ایم آر ڈی تحریک کا ساتھ نہ دے کر جنرل ضیاءکی نرم حمایت کی بعد ازاں پرویز مشرف کا بھی ساتھ دیا۔ ایم کیوایم نے 2008ء کے انتخابات میں کراچی و حیدرآباد سے اپنی پوزیشن پھر حاصل کرلی، پی پی کے دور حکومت میں ایم کیوایم کے ساتھ اس کا پیار ونفرت کا تعلق چلتا رہا۔ پی پی حکومت میں ایم کیوایم کی بے استقلالی کے اس کی سیاست پر منفی اثرات پڑے اور 2013ءکے انتخابات میں تحریک انصاف نے ایم کیوایم کو حیران و پریشان کردیا جب اس نے متحدہ کے حلقوں سے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرلئے، یہ ایم کیوایم کیلئے ”جاگ جاﺅ“ کا اشارہ تھا، وہ جاگ گئی اور 2013ءکے بعد ضمنی انتخابات میں اس نے نمایاں کامیابی حاصل کرلی، ابھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کراچی آئے، دو دن ٹھہرے جس کے دوران انہوں نے تقریباً نصف شہر کا دورہ کیا، کارنرز میٹنگز سے خطاب اور اپنے اتحادی امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ساتھ ایک ریلی کی قیادت بھی کی اس سے ان کے پارٹی کارکنوں کو گرمانے میں مدد ملے گی مگر پولنگ پر کیا اثرات ہوں گے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ کراچی وہ شہر ہے جہہاں سے عمران خان نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز دو دہائی قبل کیا تھا مگر وہ اس شہر کو کتنا وقت دیتے ہیں یہ الگ سوال ہے۔ بہر حال دو کروڑ آبادی کا شہر کراچی 5 دسمبر کو 209 یونین کونسلوں کو منتخب کرنے جارہا ہے جو مستقبل کے میئر کا انتخاب کرینگے کیا ووٹنگ کے رجحان میں تبدیلی آئیگی اگر ایسا ہوا تو کتنا؟ کیا شہر منقسم مینڈیٹ دیگا یا ایک پارٹی واحد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے گی؟ پارٹی پر دباﺅ کے باوجود موجودہ صورتحال میں ایم کیوایم کو فائدہ حاصل ہے مگر عمران اور سراج الحق کا مشترکہ دورہ کراچی ووٹروں خصوصاًغیرجانبدار ووٹروں کو متاثر کرتا ہے یہ تعین کرنا مشکل ہوگا، کراچی میں ووٹنگ کا ٹرینڈ کبھی بھی زیادہ ناقابل پیشگوئی نہیں رہا، ایسا ہی سلسلہ رہے گا یا بدلے گا؟