کراچی (نیوزڈیسک) کراچی میں5 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات اپنے شیڈول پر ہوں گے یانہیں ؟، اس کا انحصارامن و امان کی صورتحال پر ہے، لیکن جس طرح کی صورتحال اس وقت ہے، اس کے ملتوی ہو نے کے بارے میں کہنا قبل از قت ہوگا، ایک ایسے نازک حالات کے حامل شہر میں جہاں آئندہ ہفتے عمران خان کے دورے کے بعد سیاسی کشیدگی میں اضافے کا امکان ہے۔ کیا کھچڑی پک رہی ہے اوررواں ماں آئندہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کون سے فیصلے لیے جانے ہیں، جس سے مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین ہوگا۔ کراچی کی ابتر بلدیاتی صورتحال کے پیش نظر شہر میں بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کیا جانا نہ ہی کراچی کے مفاد میں ہے اور نہ ہی سیاسی سیاق وسبا ق میں ہے۔ ماضی میں اس شہر میں اس سے بد تر حالات میں انتخابات کا انعقادہوچکاہے۔کراچی میںبلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کا بہت کچھ داوپر لگا ہوا ہے۔ ان کا انعقاد 9سال کے عر صے کے بعد ہورہاہے۔ اس کے نتائج کا فیصلہ کالعدم تنظیموں، لیاری گینگ وار، بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور سیاسی جماعتوں کے مبینہ عسکری ونگز کے خلاف دو سال سے جاری کراچی آپریشن کے پس منظر میں ہوگا۔پرامن ماحول میں بلدیاتی انتخابات کاانعقاد قانون نافذ کرنے والے اداروں کےلیے چیلنج ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے ابتدائی دو مراحل میں زیادہ تر حلقوں میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک رہی ماسوائے خیر پور کے جہاں افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔دی نیوزکے صحافی مظہرعباس کے تجزیہ کے مطابق دوسرے مرحلے میں شہری علاقوں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی، جس کا سہرا حکومت ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور الیکشن کمیشن کے سر جاتاہے۔ تو کراچی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیوں کیا جارہاہے اور اگر الیکشن سے پہلے صورتحال بہت خراب ہوجاتی ہے الیکشن کمیشن مدد کےلیے فوج کو بلاسکتا ہے ، اس میں کوئی خرابی ہے اور نہ ہی کسی جماعت کو اعتراض ہوگا۔ گزشتہ ہفتے کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ہونےوالی ملاقات میںآئندہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا ایجنڈاطے ہوا۔کچھ حساس مقدمات میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں (جے آئی ٹیز) اورکمزوراستغاثہ کےباعث کچھ مشتبہ افراد کی ضمانتیں ہوئی، اور سندھ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ان امورپرماحول کچھ ایساہے کہ صوبائی حکومت ڈاکٹر عاصم کے ساتھ روا رکھے جانےوالے رویّے اور ان کے القاعدہ سے مبینہ روابط کی رپورٹس پر خوش نہیںہے۔ آ پریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان(نیپ) کے فیصلہ کن مرحلے میں کراچی سرفہرست ہے۔ آ بھی معلوم ہوا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے قبل آر می چیف جنرل راحیل شریف موجودہ صورتحال پر بریفنگ لینے کےلیے شہر کا دورہ کرسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ ہفتے کے اپیکس کمیٹی کے اجلا س میں سانحہ بلدیہ فیکٹری، صولت مرزا اور ڈاکٹر عاصم حسین جیسے کیسز کی پیروی اور زیر التوا جے آئی ٹیزکے حوالےسے کچھ اہم فیصلے کیے جائیںگے۔ اسٹیبلشمنٹ تمام رکاوٹیں ہٹانا چاہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ مزید فعال کردار کا مطالبہ کرے۔ اگر رینجرزکے چار اہلکاروں کی شہادت کی تحقیقات اس نتیجےپر پہنچتی ہےکہ اس مشتبہ افرادمیں وہ ٹارگٹ کلرز بھی شامل ہیںجنہیں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے گرفتار کیا گیا تھا آر ناقآ ضمانت جرائم کے باوجود انہیں ضمانتوں پر رہا کردیا گیا تھا ، اس سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ رینجرز کے ایک سینئر افسر نے اس نمائند ے کوبتایاکہ ’ ہم ناقص استغاثہ کے باعث رہا ہونےوالے تمام مشتبہ افراد کا ریکارڈ جمع ٓرہے ہیں اور کچھ کیسز میں تو ان کے شناختی کارڈز تک جعلی تھے۔ اس کے باعث ان کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے جنہوں نے ان کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے تھے۔ سندھ رینجرز کے چار اہلکاروں کی شہادت بہت غیر معمولی تھی، خصوصاً جس طر ح انہیں اتحاد ٹاون میں مسجد کے باہر ہدف بنایا گیا۔ شاید حالیہ مہینوںمیںیہ رینجرزپر سنگین ترین حملہ تھا۔ اگرچہ پولیس بشمول ٹریفک پولیس مرکزی ہدف رہے ہیں اور درجنوں کو جاں بحق کیا گیا لیکن جس طرح رینجرز موبائل پر حملہ کیا گیا اس سے ممکنہ اہداف اوراس سانحہ میں ملوث گینگ کےبارےمیں سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس واقعے نے لازمی طور پر