اسلام آبا(نیوزڈیسک) قومی احتساب بیورو (نیب) کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ میں اربوں ڈالر کا ایل این جی ٹرمینل کنٹریکٹ ایلنجی ٹرمینل پاکستان لمیٹڈ(ای ٹی پی ایل) کو پسند کی بنیاد پر دینے اور شفافیت، احتیاط اور منصفانہ ضرورت کیلئے اقدامات نہ کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے جس سے قومی خزانے کو2 ارب ڈالرکے قریب نقصان ہوگا۔ نیب کراچی کو یہ تحقیقات29 جولائی2015میں سونپی گئی تھی جس کو اب سینیئر انویسٹی گیشن افسر عبدالفتح نے مکمل کیا ہے، نیب کراچی نے اپنی سفارشات میں چیئر مین نیب سے ایل این جی ٹرمینل کنٹریکٹ دینے کے معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کرنے کی اجازت مانگی ہے کیونکہ ابتدائی تفتیش میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی سیکریٹری عابد سعید، انٹرا اسٹیٹ گیس سسٹم کے منیجنگ ڈائریکٹر مبین صولت، اینگرو پرائیویٹ لمیٹڈ کے سابق سی ای او عمران الحق شیخ، سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹرز زہیر صدیقی اور شعیب احمد وارثی کامشکوک ٹھیکہ ایوارڈ کرنے ایل ایس اے(ایل این جی سروسز معاہدہ) میں فعال کردار سامنے آیا ہے۔ نیب کراچی نے ای ٹی پی ایل کو ایل این جی ٹینڈر دینے میں پیپرا رولز اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کی ابتدائی تفتیش کی تھی۔ اس خلاف ورزی کے باعث ملک کو پندرہ برس کے دوران2ارب ڈالر (تقریباً سوا دو کھرب روپے) نقصان پہنچے گا۔ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ عبوری انکوائری رپورٹ باضابطہ طور پر ملنے کے بعد وزارت جواب دیگی ہم ایل این جی ٹرمینل کنٹریکٹ کے حوالے سے ہر قسم کی باقاعدہ تحقیقات کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ دریں اثناء نیب کی عبوری رپورٹ کے مطابق در حقیقت 17 جولائی 2013 کو ای سی سی میں معاملہ رکھنے کے ابتدائی اقدامات پیپرا رولز کو نظر انداز کرکے ای ٹی پی ایل کو ٹینڈر ایوارڈ کرنے میں بد دیانتی ظاہر کرتے ہیں، بظاہر ٹھیکہ دینے میں مقابلے کے اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہ بھی درست ہے کہ انٹرا اسٹیٹ گیس سسٹم پروکیورنگ ایجنسی نہیں ہے۔ اس نے سوئی سدرن، سوئی ناردرن کی جانب سے کام کیا، یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایس جی ایس نے واضح تحریری اختیار کی بجائے محض زبانی احکامات پر عمل کیا۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزید حقائق کی تصدیق کی ضرورت ہے۔ مزید برآں ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایس جی ایس نے سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیوں سے مشاورت کے بغیر جامع پروجیکٹ سے ٹولنگ (tolling) پروجیکٹ میں تبدیل کردیا۔ دونوں کو اشتہار میں شریک نہیں کیا گیا تصحیح نامہ جاری کردیا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ16جولائی کو ٹرمینل کی لاگت30تا40 ملین ڈالر تھی جو بعد ازاں مالی بولی میں120سے130 ملین بتائی گئی اور آئی ایس جی ایس نے اس کو منظور کرلیا۔ اس حقیقت کا بھی انکشاف ہوا کہ17 اگست2003 کے اشتہار کے بعد ممکنہ بولی دہندہ کی حیثیت سے پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ نے ای ٹی پی ایل پر مہربانی و طرفدار اور اختیار کردہ میکنزم سے متعلق کئی سوالات و اعتراض اٹھائے تھے۔نیب عبوری رپورٹ کے مطابق17 اگست2013 کے جاری کردہ تصحیح نامہ بھی بدنیتی پر مبنی تھا جس میں کیپسٹی چارجز، پروجیکٹ کی مدت اور دیگر ضرورت موادکو شامل کرنے کی تجویز دی گئی۔ رپورٹ میں شکایات کا حوالہ ہے کہ تصحیح نامہ ای ٹی پی ایل کو درخواست خواہش پر جاری کیا گیا۔ رپورٹ میں اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی گئی کہ پورٹ قاسم اتھارٹی نے ابتداء میں ای ٹی پی ایل اور پی جی پی ایل کی مجوزہ سائٹ پر کئی اعتراضات اٹھائے تھے لیکن اچانک رضا مندی ظاہر کرکے ای ٹی پی ایل کی مجوزہ جگہ کیلئے13ایکڑ اراضی مختص کردی۔ مزید برآں پورٹ قاسم اتھارٹی نے ایل این جی کیلئے8895 ڈالر یومیہ فی ٹگ کے حساب سے 4ٹگ کرائے پر حاصل کیے اس کا مطلب ہے کہ پی کیو اے کو 0 12,951,12 یومیہ ادا کرنا پڑینگے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 29,23 اکتوبر اور5نومبر 2013کی تینوں ٹیکنیکل ایوولوشن رپورٹس پر دستخط ہیں لیکن ایس ایس جی ایس اور آئی ایس جی ایس اصلی رپورٹوں کی جائے۔ وقوع(کہاں پر ہیں) سے واقف نہیں ہیں کیو ای ڈی نے 2012 میں میں پی جی پی ایل کوتیکنیکی طور کا میاب قرار دیا مگر 2013 میں نااہل قرار دیدیا ۔روزنامہ جنگ کے صحافی خالدمصطفی کی رپورٹ کے مطابق نیب ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایس ایس جی سی نے غیر مجاز طور پر ای ٹی پی ایل کو اربوں روپے ادا کیے ریکارڈ کے مطابق ای ٹی پی ایل نے 12سے13 ارب روپے کی کیپٹل انویسٹمنٹ پر130 روز میں4 ارب روپے وصول کیے۔ اس حساب سے ای ٹی پی ایل کیپٹل سرمایہ کاری صرف14 ماہ میں وصول کرلے گی اور باقی 13 سال10 ماہ تک مسلسل بھاری منافع کمائے گی۔ اس معاملے کی جامع تفتیش ہونی چاہیے۔ وزیر پٹرولیم، ای سی سی ارکان، وفاقی سیکریٹریز، چیئرمین اینگرو، ایم ڈی آئی ایس جی ایس، ایم ڈی پی ایس او اور دیگر اعلیٰ شخصیات سے تفتیش کی ضرورت ہے۔ دریں اثناء اینگرو ،پاک ٹرمینل(ای وی ٹی ایل) کے چیف ایگزیکٹو سید محمد علی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ عبوری انکوائری رپورٹ بے بنیاد ہے۔ ای ٹی پی ایل نےایل این جی ٹرمینل کنٹریکٹ شفاف نیلامی اور پیمرارولزکےمطابق حاصل کیا،ان کا کہنا تھاکہ دونوںپارٹیوںای ٹی پی ایل اورپی جی پی ایل نے پیپرا رولز کے مطابق یک مرحلہ دو لفافے پروسیجر کے تحت انٹرااسٹیٹ گیس سسٹم کو اپنی بولیاں بیک وقت جمع کرائیں۔ دونوں فریقوں نے دو دو لفافے(تیکنیکی و کمرشل تجاویز پر مشتمل) جمع کرائے، کیو ای ڈی کے کنسلٹنٹ نے ٹیکنیکل ایوو لوشن کیا اور ای ٹی پی ایل کی تکنیکی بولی کو کلیئر اور پی جی پی ایل کو اس بنیاد پر نا اہل کردیاکہ اس کے ٹیکنیکل پروپوزل معیار کے مطابق نہیں تھے، اس کے بعد پارٹی کی کمرشل بولی کھولی گئی جو تیکنیکی جائزے میں اہل قرار پائی چنانچہ اس طرح ای ٹی پی ایل نے کنٹریکٹ حاصل کیا۔ رولز کی کوئی خلاف ورزی ہوئی نہ کوئی رعایت دی گئی نہ طرفداری کی گئی۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیو ای ڈی نے پی جی پی ایل کی کمرشل بڈکو کیوں نہیں کھولا؟ تو سید محمد علی کا کہنا تھا کہ کیونکہ وہ ٹیکنیکل ایوولوشن میں پہلے ہی ناکام ہوگئی تھی ان کا موقف تھا کہ د ونوں فریقوں نے الگ الگ لفافوں میں تیکنیکی و تجارتی بولیاں بیک وقت جمع کرائی تھیں اس لیے نیلامی کے عمل میں کسی بھی فریق کے ساتھ کسی نا انصافی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اگر پی جی پی ایل کو اپنی کمرشل بڈ قبول نہ کرنے پر کوئی اعتراض تھا تو اس کو مقررہ وقت میں عدالت جانا چاہیے تھا، مگر وہ نہیں گئے جس کا مطلب ہے اس نے تسلیم کیا کہ تمام عمل غلطیوں سے پاک اور شفاف تھا۔ اس سوال پر کہ ایل این جی ٹرمینل کی لاگت 16 جولائی کو30۔40 ملین ڈالر تھی۔ بولی میں120۔130 ملین ڈالر کیسے ہوگئی اس کو آئی ایس جی ایس نے قبول کرلیا؟ چیف ایگزیکٹو ای وی ٹی ایل کا کہنا تھا کہ یقیناً ابتدائی لاگت 40۔30 ملین ڈالر تھی لیکن وہ اینگروپاک کی موجودہ جیٹی میں توسیع تھی، مخصوص مجوزہ ایل این جی ٹرمینل کی ہینڈلنگ کیپسٹی صرف200 ایم ایم سی ایف ڈی تھی۔ اگر جہاز کیمیکل مصنوعات لے کر لنگر انداز ہونا تو ایل این جی کی فراہمی ممکن نہیں تھی چنانچہ متعلقہ حکام نے اس قسم کے ٹرمینل کی منظوری نہیں دی چنانچہ ایل این جی ٹرمینل کی لاگت بڑھ کر130۔120 ملین ڈالر ہوگئی کیونکہ ایل این جی ٹرمینل کیلئے نئی اور الگ جیٹی تعمیر کی گئی جسکی ایل این جی ہینڈلنگ کی زیادہ سے زیادہ گنجائش690 ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔ 130 ملین ڈالر کا ٹرمینل ایل این جی کی رواں فراہمی کو یقینی بنائے گا، ای پی ٹی ایل حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت400 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی ری گیفائی کرنے کی پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب باضابطہ انکوائری شروع ہوگی تو ہم تحقیقاتی افسر کے سامنے اپنا کیس پیش کرینگے اور انہیں مطمئن کرینگے کیونکہ ای ٹی پی ایل کو ٹھیکہ دینے میں کوئی فیور نہیں دیا گیا۔