کراچی (نیوزڈیسک) سردار ایاز صادق 268؍ ووٹ لے کر واضح اکثریت سے قومی اسمبلی کے دوسری بار اسپیکرمنتخب ہوگئے ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے شفقت محمودنے 31؍ ووٹ لئے۔ یہ نتیجہ تو متوقع تھا مگر پی ٹی آئی کا سیاسی تنہائی میں الیکشن لڑنا، جب اس کے اتحادی بھی ساتھ نہ تھے، کیا سیاسی فیصلہ تھا؟ اگرچہ غیرجمہوری نہ تھا۔ ایاز صادق کیلئے اپنی دوسری اننگ کھیلنا ایک چیلنج ہوگا۔ ایاز صادق نے 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کو 8؍ ہزار ووٹ اور ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار علیم خان کو 2؍ ہزار ووٹوں سے ہرایا۔ اگرچہ ضمنی انتخاب میں ان کی جیت کا فرق کم ہوگیا مگر قومی اسمبلی میں دوبارہ اسپیکر کیلئے زیادہ ہوگیا۔ آئندہ کی مدت اسپیکر کیلئے بہت مشکل مرحلہ ہوسکتی ہے کیونکہ مزید ڈھائی سال بہت اہم ہونگے اس عرصے کے دوران پارلیمنٹ کو انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کے ارکان سمیت اہم فیصلے کرنے ہیں۔ عمران خان ایوان میں آئے اور ووٹ ڈالا مگر ڈپٹی اسپیکر سے ہاتھ ملایا نہ اپنے کالج فیلو ایاز صادق سے ملے، قائد حزب اختلاف خورشید شا ہ نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا حوا لہ دیتے ہوئے اسپیکر پر اتفاق کے حوالے سے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا۔دی نیوزکے صحافی مظہرعباس کے مطابق قومی اسمبلی کا پورا ماحول سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کی سیاسی بلوغت میں اضافے کا آئینہ دار تھا اسی لئے یہ اسپیکر کیلئے اہم چیلنج ہوگا کہ وہ باقی مدت کے درمیان کتنی کامیابی سے ایوان کو چلاتے ہیں لیکن ان کی راہ میں باہر سے سیاسی رکاوٹوں کے آنے کا امکان ہے کیونکہ شفقت محمود کے جمہوری و مہذبانہ اظہار کے برخلاف ان کےقائد عمران خان نے ایاز صادق کے رکن اسمبلی ہونے کو تسلیم نہیں کیا اگرچہ الیکشن میں ووٹ ڈالا۔ عمر ان خان، انہیں ایک بار پھر نشست سے محروم کرنے کی کوشش جاری رکھ سکتے ہیں کیونکہ انہوںنے این اے 122؍ میں تیسری بار الیکشن کی پیشگوئی کی ہے۔ قبل ازیں انہوں نے 2015ء میں عام انتخابات کی پیشگوئی کی تھی لیکن ان کیلئے مسائل ان کی پارٹی کے اندر اور اتحادیوں کی طرف سے ہیں۔ این اے 122؍ لاہور کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا ساتھ دینے و الی جماعت اسلامی نے ایاز صادق کو ووٹ دیا اور اس کے پارلیمانی لیڈر نے ایوان کو چلانے میں ان کے رویہ اور شخصیت کو سراہا۔ پی ٹی آئی کی دوسری اتحادی قومی وطن پارٹی (چیئرمین آفتاب شیر پائو) نے بھی حکمراں جماعت کا ساتھ دیا۔ کئی سوالات ہیں ا ول یہ پی ٹی آئی کے اندرونی تضادات کو ظاہر کرتاہے کہ ایک جانب تو پارٹی کے چیئرمین عمر ان خان نے این اے 122؍ کے ضمنی الیکشن کو انتخابی فراڈ قرار دیا دوسری جانب نہ صرف اس نے اسپیکر کے انتخاب میں حصہ لیا بلکہ وہ خود ایوان میں آئے اگرچہ ووٹ دیکر فوراً چلے گئے، دوم تحریک انصاف نے اسپیکر کے انتخاب میں پوری سنجیدگی سے حصہ لینا چا ہئے تھا صرف علامتی طور پر نہیں، عمران کو خود جماعتوں کو مائل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی کم از کم اپنے اتحادیوں جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کو، بعض جماعتیں اور آزاد ارکان تھے جو انہیں ووٹ دے سکتے تھے اگر وہ کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے۔ سوم، اگر عمران خان این اے 122؍ امیں مبینہ بے ضابطگیوں کے الزام کی بنیاد پر تنازع کھڑا کرنا چا ہتے تھے تو وہ الیکشن کو چیلنج اور بائیکاٹ کرسکتے تھے۔ چہارم، ایاز صادق کے اسپیکر بننے کا عمل مکمل ہونے کے باعث پی ٹی آئی اور عمران خان این اے 122؍ کے ضمنی الیکشن کو انتخابی فراڈ قرار دینے کا اخلاقی جواز کھوچکے ہیں اور ضمنی انتخاب کو پھر چیلنج کرنے کیو جہ بھی ختم کرچکے ہیں۔ بہرحال ان کے امید وار شفقت محمود نے نو منتخب اسپیکرایازصادق کو مبارکباد دی۔
دیکھئے شیریں مزاری کی بیٹی نے پی ٹی آئی کو کس طرح بدنام کر کے رکھ دیا
پنجم، طویل عرصے بعد مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے درمیان مفاہمت کے آثار ہیں کہ ایاز صادق نے اپنی حمایت کرنے پر چوہدری پرویز الٰہی کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوںنے انہیں بلا مقابلہ منتخب کرنے پر زور دیا تھا، لگتا ہے ق لیگ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے کردار سے مایوس ہے۔ اگر شریف چوہدریوں سے مفاہمت کیلئے گجرات جانے کافیصلہ کرلیتے ہیں تو پنجاب میں دلچسپ سیاسی منظر نامہ ابھر سکتاہے۔ چھٹے، اسپیکر کے اس انتخاب نے حکومت اور دیگر اپوزیشن (منفی پی ٹی آئی) جماعتوں کے درمیان کشیدگی کو کم کیا ہے۔ شفقت محمود کو ووٹ دینے و الی یک رکنی جماعت شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ تھی۔ اسپیکر کے انتخاب کے سیاسی اثرات ہونگے، پارلیمنٹ اور بالواسطہ طور پر ن لیگ کومضبوط کیا ہے جس کے امیدوار نے دو تہائی سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ایاز صادق کے ووٹ 2013ء سے دس زیادہ تھے چنانچہ اگر عمران خان اپنی ظاہر کردہ خواہش کے مطابق این اے 122؍ کے انتخاب کو پھر چیلنج کرتے ہیں تو ایک نیا تنازع پیدا ہوجائے گا اب ان کے اتحادی حمایت کرتے ہیں یا نہیں؟ عمران اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ضمنی انتخاب کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرینگے اور اگر انصاف نہ ملا تو سڑکوں پر آئیں گے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ن لیگ نے اپنے کارڈ تحریک انصاف سے بہتر کھیلے ہیں وہ نہ صرف پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی بلکہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی حکمراں جماعت کے قریب آگئیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ قومی سیاسی جماعتوں کو قریب لاسکے اور نہ کوئی اتحاد بنا سکے وہ تنہا پرواز کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ 341؍ ارکان کا ایوان ن لیگ اور تحریک انصاف میں تقسیم تھا، حزب اختلاف کی اکثریت نے ایاز صادق کا ساتھ دیا، پی ٹی آئی کو پی پی حکومت کے دور میں بھی ایسے ہی مسئلے کا سامنا رہا تھا جب سابق صدر آصف زرداری نے اپنی مدت کی تکمیل تک، ن لیگ کے سوا تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کئے رکھا تھا ہر شخص کو انتظار ہے کہ عمران خان کتنی قوت سے این اے 122؍ کے ضمنی انتخاب کو چیلنج کرتے ہیں اگر وہ ریلیف حاصل کرلیتے ہیں تو یہ ن لیگ خصوصاً ایاز ادق کیلئے پریشان کن ہوگا، راستہ طویل ہے تاہم فی الوقت ن لیگ اور ایاز صادق کا ہاتھ اوپر ہے اور عمران خان آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اچھے نتائج کیلئے پرامید ہی
مزید پڑھئیے:ذولفقار مرزا کے ایان علی اور آصف زرداری کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات
ایاز صادق کی دوسری جیت عمران کا ایک اور نقصان
10
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں