تاہم جنرل راحیل شریف کے اتوار کو خطاب کے بعد وزیر اعظم کے پاس قومی ایکشن پلان کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا، اس خطاب میں آرمی چیف نے قومی ایکشن پلان ،دہشت گردی کے خلاف، اور اس کےہمدردوں، حامیوں اور اسکی مالی معاونت کرنے والوں خلاف پختہ عزم کا اظہار کیا، اور کراچی اور بلوچستان میں خصوصی طورپر کامیابی کا تذکرہ کیا۔ یہ شاید ایم کیو ایم کے لیے بھی اچھی خبر نہیں ہے ، جس نے معاہدے کے قریب پہنچ کر خود کو مذاکرات سے علیحدہ کرکے تذویراتی غلطی کی۔ جیسا کہ شاہ صاحب دبئی میں ہیں، وہ سمجھتے ہیںکہ انکے وزرا اورسیکریٹریوں بمشول چیف سیکرٹری اور آئی جی سندھ کے خلاف سیکٹروں انکوائریوںکی وجہ سے ان کی حکومت عملی طورپر مفلوج ہوچکی ہے۔ سندھ سیکریٹریٹ اور سرکاری محکموںمیں غیریقینی کا ماحول ہے۔شاہ صاحب بھی پریشان ہیںکہ نیب اور ایف آئی اے تک انکے اپنے ہی وزرااور سیکرٹر یوں کےحوالےسے معلومات ان سے چھپا رہے ہیں،جبکہ ان کے محکموں کےافسران کے خلاف کارروائی کےلیےان کی اجاز ت نہیں لی جارہی ہے۔شاہ صاحب اپنے جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ نجی گفتگو میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ پارٹی کچھ سیاسی فیصلے کرنے کے قابل نہیںہے۔انہوںنےاچھی شہرت نہ رکھنے والے افسران کی متنازع ترقیوں اور تعیناتیوں میں اپنی جماعت کے کچھ رہنماؤں کے کردار پر بھی تنقید کی۔ وہ اپنی کابینہ کے ساتھ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر بہت زیادہ شرمندہ ہیں، جن کے بارے میں کئی ایک کا خیال ہے کہ وہ ان ہی کی اس رپورٹ پرپاکستان آئے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ ان کی گرفتاری سے ایک روز قبل وزیراعلیٰ نے ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر کو کہاکہ ڈاکٹرعاصم کے خلاف شواہد اتنے ٹھوس نہیںہیں کہ انہیں گرفتارکیا جائے، لیکن پھر بھی وہ گرفتارہوگئے۔ شاہ صاحب کو ڈاکٹر عاصم سمیت کسی کی بھی اس ضمن مدد کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ قبل ازیں ، انہوں نے شکایت کی تھی کہ وزیر اعظم اور وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود نیب اور ایف آئی اے نےانکے وزرا اور سیکرٹریوں کےحوالےسے انکوائری کا معاملہ حل نہیں کیا۔اس لیےوہ اپنی حکومت کی ٹوٹ پھوٹ کی رپورٹ لےکر دبئی گئے ہیں، وہ وزارتوں اورسیکرٹریوں کے عہدوں پر نئے چہروں کےخواہاں ہیں بصورت دیگر وہ اپنے رہنماؤں کو بدترین حالات کے سامنے تیار رہنے کےلیے خبردار کریں گے۔ انہوں نے موجودہ صورتحال کو بلدیاتی انتخابات کےلیے بھی