نئی دہلی ، لندن (نیوز ڈیسک) برطانوی میڈیا کے مطابق 1965ءمیں بھارت اورپاکستان کے درمیان جنگ ’رن آف کچھ ‘کے بیابان علاقے میں ہونے والی ایک چھوٹی سی جھڑپ سے شروع ہوئی جبکہ بھارت کو اس وقت اور شرمسار ہونا پڑا جب پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر بھارتی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں اور گولہ بارود دکھائے۔بی بی سی کے مطابق’رن آف کچھ ‘کا پورا علاقہ ایک طرح کا صحرا تھا جہاں کچھ چرواہے کبھی کبھار اپنے گدھوں کو چرانے جایا کرتے تھے یا بھولے بھٹکے کبھی پولیس والوں کا دستہ گشت کر لیا کرتا تھا۔حکمت عملی کے اعتبار سے یہاں پاکستان بہت فائدے میں تھا کیونکہ اس علاقے سے محض 26 میل کے فاصلے پر ہی ان کا ریلوے سٹیشن بدین تھاجبکہ بھارت کی جانب سے کچھ کے میدان میں پہنچنے کے تمام راستے تقریباً ناقابل رسائی تھے۔ سب سے نزدیک 31ویں بریگیڈ احمد آباد میں تھی جہاں سے نزدیکی ریلوے سٹیشن بھوج سے 180 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا لیکن متنازعہ پاکستانی سرحد سے 110 میل کے فاصلے پر تھا۔دونوں ممالک کے درمیان جھگڑے کی شروعات اس وقت ہوئی جب بھارتی سیکیورٹی فورسز کو پتہ چلا کہ پاکستان نے ڈینگ اور سرائ کو ملانے کے لیے 18 میل طویل ایک کچی سڑک بنا لی ہے اور یہ سڑک کئی مقامات پر بھارتی سرحد کے ڈیڑھ میل اندر تک جاتی تھی۔ بھارت نے اس مسئلے پر مقامی اور سفارتی سطح پر احتجاج کیا تھا۔پاکستان نے اس کے جواب میں 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر اظہر کو اس علاقے میں مزید جارحانہ گشت کرنے کا حکم دیا تھا اور مارچ آتے آتے بھارت نے بھی کجرکوٹ کے قریب نصف کلومیٹر جنوب میں سردار چوکی بنالی۔پاکستان کے کمانڈر میجر جنرل ٹکّا خان نے بریگیڈیئر اظہر کو حکم دیا کہ حملہ کر کے بھارت کی نئی بنی سردار چوکی کو تباہ کر دیا جائے، 9اپریل کی صبح دو بجے پاکستانی حملہ شروع ہوا اورسردار چوکی، جنگل اور شالیمار نام کی دو اور بھارتی چوکیوں پر قبضہ کرنے کا حکم دیا گیا۔شالیمار چوکی پر تعینات سپیشل ریزرو پولیس کے جوان، مشین گن اور مورٹر فائر کے کور میں آگے بڑھتے ہوئے پاکستانی فوجیوں کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ اگرچہ سردار چوکی پر تعینات پولیس کے اہلکاروں نے زبردست مزاحمت کی۔ چودہ گھنٹوں کے زبردست حملے کے بعد بریگیڈیئر اظہر نے گولہ باری روکنے کا حکم دیااوراس درمیان سردار چوکی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار دو میل واپس وجیو کوٹ چوکی پر چلے آئے۔پاکستانیوں کو اس کا پتہ نہیں چلا اور انھوں نے بھی اپنے فوجیوں کو واپس اسی جگہ پر واپس کرنے کا حکم دیا جہاں سے انھوں نے صبح حملہ شروع کیا تھا۔شام کو واپس آ چکے جوانوں کو احساس ہوا کہ سردار چوکی پر کوئی بھی پاکستانی فوجی نہیں اور شام ہوتے ہوتے بغیر لڑے دوبارہ اس چوکی پر کنٹرول کر لیا۔24 اپریل کو بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی فوجیوں نے سیرا بیت پر قبضہ کر لیا اورانہوں نے اس کے لیے پوری دو ٹینک ریجمینٹ اور توپ خانے کا استعمال کیا اور بھارتی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا،اگلے دو دنوں میں بھارتی فوجیوں کو بیئر بیت کی چوکی بھی خالی کرنی پڑی۔ بھارت نے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میجر جنرل ڈن کو ممبئی سے کچھ بھیجا۔پاکستان نے بھی اس دوران مکمل آٹھویں ویں انفینٹری ڈویڑن کو کراچی سے پاکستانی شہر حیدرآباد بلا لیا۔اس وقت علاقے میں بریگیڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سندرج نے پولیس کی وردی پہن کر علاقے کا معائنہ کیا اور مشورہ دیا کی بھارت کو کجرکوٹ پر حملہ کر دینا چاہیے۔بھارت کو اس وقت اور شرمسار ہونا پڑا جب پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر بھارتی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں اور گولہ بارود دکھائے اوربعد میں برطانیہ کی مداخلت سے دونوں فوجیں اپنے پرانے محاذ پر واپس چلی گئیں۔اس جنگ میں پاکستان ہندوستان پر بھاری پڑا۔