کراچی(نیوز ڈیسک) سونے کی ایکسپورٹ کی آڑ میں منی لانڈرنگ کی مرتکب کمپنیاں جعلی نکلیں ۔ عام شہریوں کے شناختی کارڈ پر مافیا کے کارندوں کی تصاویر چسپاں کرکے کمپنیاں رجسٹرڈ کرائی گئیں ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اسکروٹنی کے بغیر ایکسپورٹ کی اجازت دیدی ۔ پانچ کمپنیوں نے 24 ارب روپے کا سونا ایکسپورٹ کیا جس کے عیوض برآمدی زرمبادلہ پاکستان نہیں لایا گیا ۔قومی اخبار نے سونے کی آڑ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث حوالے کاکاروبار کرنیوالی مافیا کا سراغ لگایا ۔ جعلی ایکسپورٹ فارمز استعمال کرکے سونے کی ایکسپورٹ کی آڑ میں بااثر عناصر کا کالادھن دبئی اور گلف کی ریاستوں کومنتقل کیاگیا ۔ ایکسپریس رپورٹر کاشف حسین کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم دبئی اور خلیجی ریاستوں کی ریئل اسٹیٹ میں انویسٹ کی گئی ۔ ایف آئی اے کی تحقیقات میں زیر حراست کلیئرنگ ایجنٹ کی نشاندہی کے باوجود ماسٹر مائنڈ کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔ شفاف تحقیقات کی صورت میں ملک سے سرمایہ باہر نکالنے والے بڑے نام افشا ہوسکتے ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی خصوصی ہدایت پر سونے کی آڑ میں اربوں روپے کا سرمایہ بیرونی ملک منتقل کرنیوالی مافیا کیخلاف ازسر نو تحقیقات شروع کردی گئی ہیں ۔کسٹم حکام نے 5 فرمز کیخلاف ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات کا آغا ز کردیا ہے ۔ قومی اخبار کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ حوالے کا کاروبار کرنیوالے ایک منی چینجر نے سونے کی آڑ میں سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کیلئے 5 جعلی ایکسپورٹ فرمز قائم کیں ۔ ان فرمز کے ذریعے 2010 سے 2013 کے درمیان 24 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ سونے کی شکل میں بیرون ملک منتقل کیا ۔ مقررہ مدت ختم ہونے کے باوجود برآمدی زرمبادلہ ملک میں واپس نہ آنے پر متعلقہ اداروں کے کان کھڑے ہوگئے اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی نشاندہی پر کسٹم اور ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ میں ملوث عناصر کیخلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ۔ قومی اخبار کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق سونے کی ایکسپورٹ کیلئے جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کرائی گئیں مافیا نے غیر متعلقہ عام شہریوں کے شناختی کارڈ کی نقل پراپنے کارندوں کی تصاویر پر چسپان کرکے متعلقہ ایسوسی ایشن کی رکنیت حاصل کی جس کی بنیاد پر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں رجسٹریشن کرائی گئی ۔ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ان فرمز کی اسکروٹنی اور دستاویزات کی جانچ کے بغیر ہی ایکسپورٹ کے اجازت نامے جاری کردیئے محکمہ کسٹم نے جن کمپنمیوں کیخلاف تحقیقات کا آغاز کیا ہے ان میں بی ڈی انٹر پرائزر ، رباب کارپوریشن ، سانی امپیکس ، مکہ انٹر پرائزر اور Reaz کارپوریشن شامل ہیں واضح رہے کہ اس سے قبل مئی 2014 ءمیں ایف آئی اے نے بھی جعلی دستاویزات کے ذریعے 35 ارب روپے مالیت کا سونا بیرون ملک اسمگل کرنے کے الزام میں 5 کمنپیوں کیخلاف انکوائری کا آغاز کیاتھا ۔ اس انکوائری میں ریان کلیکشن ، الہدی ، بینگلز اطہر جیولرز ، عطا کا سٹنگ اورملک جیولر نامی فرمز کو جعلی دستاویزات کے ذریعے اربوں روپے مالیت کا سونا ایکسپورٹ کرنے اور برآمد ی زرمبادلہ وطن واپس نہ لانے کا ذمے دار قرار دیا گیا تھا ۔ یہ کمپنیاں بھی جعلی دستاویزات پر رجسٹرڈ کی گئیں ۔تحقیقات کے دوران سونے کی ایکسپورٹ کیلئے خدمات انجام دینے والے کلیئر نگ ایجنٹ نے مافیا کے سرغنہ منی ایکسچینج کے مالک کی نشاندہی بھی کی تاہم تفتیشی اداروں نے ناکافی ثبوت کی بنا پر منی ایکسچینج کے مالک کو حراست میں نہیں لیا جبکہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ماسٹر مائنڈ ایکس چینج کمپنی کے مالک نے سارا الزام کلیئرنگ ایجنٹ پر تھوپ دیا ۔ 2014 میں شروع ہونیوالی انکوائری کے اب تک ٹھوس نتائج حاصل نہیں ہوسکے تاہم وزیر داخلہ چوہدر نثار کی خصوصی ہدایت پر کسٹم اور ایف آئی اے نے از سر نوتحقیقات کا آغا ز کردیا ہے ۔ ذرائع کا کہن اہے کہ ملکی تاریخ میں سونے کی آڑ میں یہ سب سے بڑی منی لانڈرنگ ہے جس کی تحقیقات کا دائرہ دبئی تک وسیع ہونا ضروری ہے ۔