اسلام آباد(نیوزڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف و انسانی حقوق کو بتایا گیا ہے کہ قومی احتساب بیورو(نیب) کواب تک 2 لاکھ 79 ہزار 332 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 2 لاکھ79 ہزار65 شکایات حل کر لی گئیں اور 267 باقی ہیں ، 8 سو15 انکوائریاںزیرالتواءہیں اور اب تک 301 مقدمات کی تفتیش باقی ہیں ۔نیب نے اب تک 2283 کیسز فائل کیے ہیں 1556 کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے اور 727کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ادارے نے 898 وفاقی ملازمین کے خلاف ریفرنس دائر کیے ،اب تک 264 ارب روپے کی ریکوری بھی کی ہے جن میں سے 181 ارب روپے بنک نادہندگان سے ریکور کیے گئے جبکہ کمیٹی نے نیب کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ کیس نمٹانے کا عمل تیز کیا جائے۔کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قومی احتساب بیورو اور وفاقی تفتیشی ایجنسی کے ادارے کے مینڈیٹ ، کام کی حدود ، کارکردگی ، ایف آئی اے سے منتقل ہونے والے کیسز و دیگر معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قومی احتساب بیورو کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو ادارے کے مینڈیٹ کام کی حدود ، کارکردگی ، فنگشنز اور تقرر و تبادلے کے اختیارات و دیگر معاملات بارے تفیصل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب کا کام تفتیش کرنا ، پراسکیوشن کرنا اور کرپشن کے کیسز کو جلد سے جلد حل کرنے کے علاوہ قرضوں کی ریکوری کرنا ، معاشرے کو کرپشن کے نقصانات سے آگاہ کرنا وغیرہ شامل تھے ۔انہوں نے کہاکہ نیب کا بنیادی کام نہ صرف کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے بلکہ لوٹی ہوئی رقم واپس عوام کو لوٹانا بھی ہے نیب کا کام اتھارٹی کے غلط استعمال پر کارروائی کرنا ہے ایس آر او کے غلط استعمال پر بھی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور عوام سے رقم لوٹنے والوں کے خلاف بھی یہ ادارہ کارروائی عمل میں لاتا ہے ۔ کرپشن کی سزا ہمارے قانون کے مطابق 14 سال کی قید ، پبلک آفس سے فوری طرف پر 10 سال کےلئے معطلی ، اور 10 سال تک کےلئے مالی سہولت و قرضے کی معطلی شامل ہے ۔ہمار ا قانون پورے پاکستان کےلئے ہے اور ہمارے کام کی حدود صوبائی و فاٹا کے علاقے بھی شامل ہیں ۔نیب کو کنٹرول چیئرمین نیب کرتا ہے ۔نیب کے آاپریشن کے حوالے انہوں نے کہا کہ نیب کو ٹیلی فون ، فیکس یا میل کے ذریعے جو شکایت موصول ہوتی ہے اس کی پہلے تصدیق کی جاتی ہے پھر انکوائری کی جاتی ہے پھر تفتیش ہوتی ہے پھر مقدمہ درج ہوتا ہے اور اب تک نیب کو 2 لاکھ 79 ہزار 332 شکایات موصول ہوئی ہیں ۔جن میں سے 2 لاکھ79 ہزار65 شکایات حل کر لی گئی ہیں اور 267 باقی ہیں ۔6 ہزار 163 انکوئریاں کی گئی ہیں جن میں 5 ہزار 3 سو48 انکوئریاں حل کر لی گئی ہیں اور 8 سو15 زیرالتواءہیں اور اب تک 3 ہزار 77 شکایات کی تفتیش کی گئی ہے جن میں سے 27 سو76 شکایات کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور 301 باقی ہیں ۔ادارے نے اب تک 2283 کیسز فائل کیے ہیں 1556 کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے اور 727کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ادارے نے 898 وفاقی ملازمین کے خلاف ریفرنس دائر کیے ہیں ۔اور ادارے نے اب تک 264 ارب روپے کی ریکوری بھی کی ہے جن میں سے 181 ارب روپے بنک نادہندگان سے ریکور کیے گئے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ 2014 کے بعد کسی بھی کیس کو دس ماہ میں حل کرنا ضروری ہوتا ہے اور 80 فیصد درخواستیں سکروٹنی کے وقت ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے پاس قانون کی شق 16-A کے تحت اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عدالت سے کیس احتساب کی عدالت میں ٹرانسفر کر سکتا ہے اور نیب نے اب تک ایف آئی اے سے جو کیسز ٹرانسفر کیے ہیں وہ زیادہ تر عوامی دھوکہ دہی کے متعلق ہیں ۔ ایف آئی اے کی ونگز کو جب نیب میں ضم کیا گیا تھا تو اس وقت 4641کیسز تھے 2004 میں ایف آئی اے کی اکنامک کرائمز ونگ اور اینٹی کرپشن ونگ کو نیب میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا اور 2008 میں وزیر اعظم پاکستان نے یہ ونگز نیب سے واپس ایف آئی اے کے حوالے کر دیں ۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کے کیسز کے حوالے سے نیب کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تفتیشی ایجنسی ڈکلیئر کر دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نیب کے ذریعے یو این سی اے سی پر دستخط کر چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تین جھوٹی درخواستیں دینے والوںکے خلاف ایکشن لیا گیا جن میں سے دو کو سزا بھی ملی ہے اب شکایت درج کروانے والے کا حلف نامہ بھی ساتھ لگایا جاتا ہے تاکہ سسٹم کو زیادہ موثر بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ نیب بنک فراڈ کرنے واکے سے جو ریکور کرتا ہے اس کا تین فیصد نیب کو ملتا ہے اور نیب اس تین فیصدکا80 فیصد وزارت خزانہ میںجمع کراتا ہے اور 20 فیصد عمارتوں اور گاڑیوں پر خرچ کرتا ہے اور اب تک نیب 12 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کر چکا ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیب کے حوالے سے ہمیں بہت سی چیزوں کا علم ہوا ہے ادارے کی کارکردگی بہت اچھی ہے ایسے ادارے ملک کا بہتر امیج نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ایسے ادارے اگر صحیح طرح کام کریں تو ملک نہ صرف ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے بلکہ اداروں کی مضبوطی سے ملک کا نام روشن ہوتا ہے ۔قائمہ کمیٹی نے دوسرے اداروں سے منتقل ہونے والے کیسز اور پراسکیوٹرز کی لسٹ بھی طلب کر لی۔اور معاملات کو زیادہ بہتر بنانے کی بھی ہدایت کر دی ۔اراکین کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگوںکی شکایات نیب کو جب موصول ہوتی ہیں تو میڈیا میں وہ معاملات کیسے شائع ہو جاتے ہیں جس پر نیب کے حکام نے کہاکہ شکایت کرنےو الے خود ہی میڈیا کوبتاتے ہیں ۔کمیٹی کے اجلاس میں ایف آئی اے کے حکام نے بھی ادارے متعلق تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ادارہ پارلیمنٹ کے ایکٹ1974 کے تحت قائم کیا گیا تھا ۔اور اس کا مینڈیٹ صوبائی اداروں و فاٹا سے ہٹ کے ہے اس ادارے کے فرائض میں ہے کہ غیر قانونی ہجرت ، انسانی اسمگلنگ ، سائبر کرائم ، اینٹی کرپشن ، منی لانڈرنگ وغیر ہ کے معاملات کو دیکھے اس کے 28 خصوصی قوانین اور 105 سیکشن ہیں ۔ادارے کاسربراہ ڈائریکٹرجنرل ہے ۔ایف آئی اے سے نیب کو 2114 کیسز ٹرانسفر کیے گئے ہیں اور نیب سے ایف آئی اے کو 522 کیسز ٹرانسفر کیے گئے ہیں انہوں نے نیب اور ایف آئی اے کی مشترکہ کام کی حدود بارے بھی کمیٹی کو تفصیل سے بتایا ۔جس پر رکن کمیٹی سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ ایف آئی اے سندھ میں جو کر رہا ہے کیا وہ قانون کے مطابق ہے جس پر ایف آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کو جہاں بھی دہشت گردی کا شک ہو وہاں ہم سے کارروائی کراسکتی ہے ۔قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزارت قانون انصاف سے کرپشن کے خاتمے کےلئے تجاویز طلب کر لیں ۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز سلیم ضیاء، عائشہ رضا فاروق ، مسز زاہدہ خان ، اور ستارہ ایاز کے علاوہ نیب ، ایف آئی اے اور وزارت قانون انصاف کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔