اسلام آباد(نیوزڈیسک)بات ابھی ختم نہیںہوئی،مشاہداللہ خان کے الزامات اتنے سنگین ہیں کہ ان کی گونج کافی عرصہ سنائی دیتی رہے گی۔جنرل (ر) حمید گل کے انتقال اور وزیرداخلہ پنجاب شجاع خانزادہ پر خودکش حملے نے مشاہداللہ کے ”فوج پر خودکش حملے“ پر کافی حد تک پردہ ڈال دیا ہے مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاہد اللہ کے الزامات کسی بھی طرح معمولی نہیںہیں اور اتنے زیادہ سنگین ہیں کہ ان کے اثرات تادیر محسوس کئے جاتے رہیںگے، بالخصوص مشاہد اللہ کے بیان سے پاک فوج میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے اس سے قبل بھی ن لیگ کی حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات سرزد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے فوج میں بے چینی پھیلی،اب وزیر اعظم نواز شریف نے متنازعہ انٹرویو دینے پر وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان سے استعفی تو ٰلے لیا ہے یہ وزیر اعظم کابروقت دانشمندانہ فیصلہ ضرور ہے مگر یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس ستعفے سے معاملہ ختم ہوگیا۔مشاہد اللہ نے ایسے سنگین الزامات لگائے ہیں جن سے اداروں میں کشیدگی پیداہوسکتی ہے۔فی الحال بگولے کی طرح بننے والے ایک بڑے بحران پرجنرل(ر)حمید گل کے انتقال اور وزیرداخلہ پنجاب پر خودکش حملے کی وجہ سے کچھ پردہ ضرور پڑ گیا ہے مگر یہ اقدام بہت سی تلخیاں بھی لے کر آیا ہے جن کی جھلک گزشتہ دنوں کی وزیراعظم ،وفاقی وزراءاور پاک فوج کے افسران کی مختلف تقریبات میں فوٹیج دیکھ بخوبی لگایاجاسکتاہے۔کشیدگی یا کبیدگی کے اثرات چہروں پر واضح ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بتایا کہ مشاہد اللہ کو بتایا گیا ہے کہ ان کا انٹرویو غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ مالدیپ میں موجود مشاہد اللہ کو فوری طور پر واپس آنے کو کہا گیا ہے جس کے بعد وہ اپنے دعوو¿ں پر وضاحت پیش کریں گے۔ پرویز رشید نے واضح الفاظ میں کہا کہ وزیر اعظم ہاو¿س میں وزیر اعظم کی موجودگی میں متنازعہ انٹرویو میں بتایا جانے والا کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا نہ کبھی کوئی ٹیپ سنی گئی اور نہ ہی سنائی گئی۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے اپنے متنازعہ انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ حساس ادارے کے سابق سربراہ سیاسی اور عسکری قیادت کو ہٹا کر حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ جس کی آڈیو ٹیپ 28 اگست 2014 کو وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی سنوائی تھی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں