قصور(نیوزڈیسک)پاکستان میں بچوں سے زیادتی کا سب سے بڑا اسکینڈل سامنے آگیا ¾ قصور کے علاقے گنڈا سنگھ والا میں ایک گینگ تقریباً دس سال سے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ کے بعد ویڈیو بنا کر بلیک میل کر نے لگا ¾زیادتی کے شکار والدین سے بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بھی بٹورے گئے۔ڈی پی او قصورنے اس حواالے سے بتایا ہے کہ پولیس کوبچوں سے زیادتی کے 60 سے70ویڈیوکلپ ملے ہیں،تاہم قابل شناخت لوگ کم ہیں۔ تفصیلات کے مطابق قصور میں کم عمربچوں سے زیادتی کاواقعہ منظرعام پرآنے کے بعد 280 بچوں سے زیادتی کی 400 ویڈیوز منظر عام پر آگئی ہیں۔گینگ میں 25 سے زائد لوگ شامل بتائے گئے ہیں گھناﺅنے واقعہ سے اہل علاقہ بے بس نظر آ تے ہیں واقعہ تب سامنے آیا جب گذشتہ ہفتے زیادتی کا شکار ایک بچے کے والدین اور اہل علاقہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور پولیس کے عدم تعاون پر پولیس سے مڈبھیڑ ہوگئی اس تصادم میں متعدد افراد زخمی ہوئے ، معلوم ہوا ہے کہ عرصہ دراز سے یہاں بچوں سے زیادتی کے واقعات ہورہے ہیں ، کئی واقعات میں بچے اپنے گھروں سے زیورات چوری کرکے بلیک میلرز کو دے چکے ہیں۔رپورٹس کے مطابق ایک دکھیاری ماں نے بتایا کہ اس نے زیادتی کا شکار بچے کی ویڈیو ضائع کرنے کےلئے بلیک میلرز کو اپنا زیور بیچ کر چھ لاکھ روپے ادا کیے ۔ایک دس سالہ بچے نے بتایا کہ وہ گن پوائنٹ پر ان جرائم پیشہ عناصر کی زیادتی کا شکار ہوا۔ایک اور متاثرہ بچے کی ماں نے بتایا کہ گاﺅں میں ہر بچہ ان لوگوں کی زیادتی کا شکار ہوچکا ہے ۔ایک اور لڑکے نے بتایا کہ 2006 میں جب وہ نو سال کا تھا تو اس گینگ کے ہتھے چڑھا اور زیادتی کا شکار ہوا ۔ایک اور دس سالہ بچی کے والدین کا کہنا تھاکہ ان کی بچی کو اسکول یونیفارم میں زیادتی کا نشانہ بناکر فلمایا گیا پھر انہیں بلیک میل کرکے دس لاکھ روپے ہتھیائے گئے تاہم پھر اس گینگ نے ان کی بچی کی ویڈیو ضائع نہیں کی یہی نہیں بلکہ ایک بچے نے بتایا کہ گینگ میں شامل شیرازی نامی شخص اسکائپ پر بیرون ملک کسی کو ویڈیو فراہم کرنے اور اس کے بدلے رقم کی بات کررہا تھا ۔پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ہیڈ صبا صادق نے اسکینڈل کو بچوں سے زیادتی کا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا ہے ، اور اس کی انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ معاملے پر وفاقی سطح پر آواز اٹھاﺅں گی ۔اس حوالے سے ڈی پی او قصوررائے بہادرنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پولیس کو بچوں سے زیادتی کی ویڈیوزکے 60 سے70کلپ ملے ہیں تاہم قابل شناخت لوگ بہت کم ہیں اور چھ سات لوگوں کی شناخت ہوسکتی ہے جنہیں حراست میں لیاجاچکاہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ ایسے افراد کو بھی گرفتار کراناچاہتے ہیں جو واقعہ میں ملوث نہیں حقیقی مجرموں کیخلاف ہی چالان پیش ہوناچاہیے کیونکہ دوسرے لوگوں کو ملوث کرنے سے اصل مجرم بھی بچ سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ واقعہ کے پیچھے گاﺅں کے لوگوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے کے چھوٹے چھوٹے وااقعات اوراراضی کے تنازعات بھی شامل ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ملزموں پر تشدد نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ان سے قانون کے مطابق تفتیش کی جارہی ہے کیونکہ ملزموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔