اسلام آباد(نیوزڈیسک)وفاقی حکومت نے حزب اختلاف کی فراہم کردہ ’’سہولت‘‘ سے لگاتار فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ سال کا میزانیہ ’’اتفاق رائے‘‘ سے منظور کر لیا، یہ ’’سہولت‘‘ حزب اختلاف کے واک آئوٹ سے تعلق رکھتی ہے جس نے کراچی میں گرمی کی شدت سے جاں بحق ہوئے افراد کی بڑی تعداد کے لئے منگل کو دوسرے دن واک آئوٹ کیا جو بائیکاٹ میں تبدیل ہو گیا، اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حزب اختلاف کو ایوان میں واپس لایا جاتا اور اس کی واپسی تک اجلاس کو معرض التوا میں ڈال دیا جاتا۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے پارلیمانی گروپ لیڈرز کے ساتھ اجلاس کر کے موہوم سی سعی ضرور کی تاکہ میزانیے کی منظوری کا آخری مرحلہ حزب اختلاف کی ایوان میں موجودگی کے دوران طے ہوتا۔ خزانے اور اقتصادی امور کے وفاقی وزیر سینیٹر محمد اسحاق ڈار کو یقیناً اس کا قلق ہو گا، وزیراعظم نواز شریف اس موقع پر ایوان میں موجود ہوتے تو اس کارروائی کا تاثر مزید بہتر قائم ہوتا۔ حزب اختلاف کےگروپس بجلی کی کمیابی کے سوال پر حکومت کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اس سے بعض حضرات نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حکومت کے خلاف وسیع تر اتحاد قائم ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے قائم مقام سربراہ شاہ محمود قریشی نے اس تاثر کی نفی کر دی ہے اور رائے ظاہر کی ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان وحدت عمل انفرادی مسائل کے حوالے سے معرض تشکیل پا رہی ہے، وہ متحدہ جیسی پارٹی کے ساتھ کسی سیاسی اتحاد میں کیونکر شامل ہو سکتے ہیں۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان نے اجلاس سے واک آئوٹ کے بعد پارلیمنٹ ہائوس کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک ساتھ نماز پڑھی تاہم یہ کراچی کی گرمی کے ہلاک شدگان کے لئے جنازے کی نماز تھی۔ پہلے حزب اختلاف کے ارکان نے نماز جنازہ پڑھی، وفاقی وزراء کو اس کا علم ہوا تو وہ بھی اسپیکر سید ایاز صادق کو لے کر بھاگم بھاگ باہر آ گئے ان کی آمد سے قبل نماز جنازہ ادا کی جا چکی تھی جس کی امامت جماعت اسلامی کے پارلیمانی گروپ لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ خان نے کی تھی۔ وزراء اور حکومتی ارکان نے الگ نماز جنازہ جماعت اسلامی کے ہی ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شیر اکبر خان کی اقتداء میں ادا کی۔ نماز جنازہ کی ان دو کارروائیوں کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ سیاسی مشق تھی تو غلط نہیں ہو گا جس میں شرکاء نماز کم ادا کر رہے تھے اپنی تصویر کے اچھے پوز پر زیادہ متوجہ تھے۔ انسانی جانوں کے اتلاف کا ان فاضل ارکان کو اگر اس قدر ہی دکھ تھا تو انہیں ہر روز تھر میں قحط کے ہاتھوں مرنے والے معصوم بچوں کی غائبانہ نماز جنازہ ہر روز پڑھنا چاہئے جو ایک سال میں ایک ہزار سے زیادہ تعداد میں پانی اور خوراک نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ان فاضل ارکان نے گزشتہ دسمبر میں وحشی درندے دہشت گردوں کے ہاتھ شہید ہوئے پشاور آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کی غائبانہ نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھی۔ یوں لگتا ہے کہ پارلیمانی ایوانوں کے آئندہ احتجاج میں غائبانہ نماز جنازہ ایک نئے عنصر کے طور پر شامل ہو گئی ہے جس سے اس کا تقدس مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے حوالے سے ایک سیاسی پہلو کافی دلچسپ تھا کہ دونوں مرتبہ متحدہ کے ارکان اس میں شامل ہوئے جن کی امامت دونوں مرتبہ جماعت اسلامی کے ارکان نے کرائی۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں سرکاری قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ حکومت پر کافی برہم دکھائی دیئے۔ انہوں نے بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ پر وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر قوم سے معافی مانگیں۔ شاہ صاحب کو سکہ بند قائد حزب اختلاف کا روپ دھارنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ قلم دوات والی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف اور وزیر مملکت چوہدری عابد شیر علی کے استعفوں کا مطالبہ کیا۔