اسلام آباد(نیوزڈیسک) اب وقت آگیا ہےکہ سیاسی جماعتیں انکوائری کمیشن میں ثابت کریں کہ جو ثبوت اور شواہد انہوں نے پیش کیےتھے ، وہ قابل اعتماد اور قابل بھروسہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی 2013کے انتخابات میں منظم دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے قائم کیے جانیوالےعدالتی کمیشن کی کارروائی کا حتمی مرحلہ شروع ہوجائیگا۔ اس سے سیاسی جماعتوں کی اپنے الزامات ثابت کرنے کی اہلیت کا تعین ہوجائیگا۔ شواہد اور ثبوت جمع کرانے کا وقت گزرچکا ہے ، اور اب سیاسی جماعتوں کے وکلاء صرف انہی دستاویزات پر توجہ مرکوز کرینگے جوکہ کمیشن میں جمع کرائے جاچکے ہیں۔ بنیادی دلائل تحریک انصاف اور ن لیگ کے قانونی نمائندگان کی جانب سے سامنے آنے کے امکانات ہیں۔ پیر کے روز چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تمام جماعتوں کو ہدایت دی کہ اگر وہ چاہیں تو بدھ تک اپنے دلائل کا ڈھانچہ یا خاکہ پیش کرسکتے ہیں ، اور ان کے جمع کرائے جانے کا اظہار شواہد سے ہونا چاہیےجوکہ پہلے ہی پیش کیے جاچکے ہیں۔ عدالتی کمیشن کی تحقیقات کا دائرہ کار صدارتی آرڈیننس کے سیکشن 3 میں بتایا گیا ہے، جس کے تحت کمیشن کو اس بات کا تعین کرناہےکہ 2013کے عام انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی ہوئی یا نہیں ۔ سیکشن 3کی روشنی میں کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو سوالنامہ دیا تھا، اس کے بعداس نے شواہد جمع کرنے شروع کیے اور گواہان سے جراح کی گئی۔ دریں اثناء گزشتہ ہفتے کمیشن نے تحریک انصاف اور ن لیگ سے اس مفاہمتی یادداشت کی نقل جمع کرانے کو کہا تھا جس پر انہوں نے یکم اپریل 2015کو دستخط کیے تھے ۔ تحریک انصاف نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے اور ن لیگ نے ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ دونوں جماعتوں نے اس تنازع کو ایک جوڈیشل کمیشن کے ذریعے حل کرنے پراتفاق کیاتھا۔ دونوں جماعتوں کے مابین یہ طے پایا تھاکہ اگر کمیشن یہ تعین کرتا ہےکہ 2013کے عام انتخابات کے نتائج میں انتخاب کنندگان کے مینڈیٹ کی صحیح عکاسی نہیں ہوئی تو وزیر اعظم آئین کےآرٹیکل58(1) کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کردینگے ۔ جس کے بعد نگراں کابینہ آرٹیکل 224اور 224Aکے تحت مقرر کی جائیگی اور اسی طرح چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کی جائینگی ۔ لیکن اگر کمیشن یہ تعین کرتا ہےکہ انتخابات کے نتائج میں عمومی طور پر انتخاب کنندگان کے مینڈیٹ کی درست عکاسی ہوئی تو اسمبلیاں معمول کے مطابق کام کرتی رہینگی اور تحریک انصاف کے تمام الزامات کو واپس لیا جانا تصور کیا جائیگا۔ اس مفاہمتی یادداشت کے مطابق تحریک انصاف مروجہ طریقہ کار کو اپناتے ہوئے نادرا کے چیئرمین کی تقرری سے مطمئن ہے۔ اگر کمیشن آرڈیننس کے تحت تحقیقات کیلئے ایک یا ایک سے زائد تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے تو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری مروجہ طریقہ کار کےتحت اور تحریک انصاف سے مشاورت کے بعد کی جائیگی۔