مطابق مسلمانوں کی تعداد 60ہزار تھی جو دوسری مرم شماری 1911ءمیں بڑھ کر دولاکھ تک پہنچ گئی جس سے بدھ اکثریت کو تشویش لاحق ہوئی، برما1938ءتک برطانوی ہندوستان کا حصہ رہا ۔گلوبل روہنگیا سینٹر کے صدر شیخ عبداللہ معروف برما کی 1948ءمیں انگریزوں سے آزادی کے بعد کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے، انہوں نے بتایا کہ 1938ءمیں انگریزوں نے برصغیر سے برما کو جداکرکے مسلمانوں کیلئے ناسازگار حالات کی بنیاد رکھی، 1948ءمیں آزادی برما کے بعد 1962ءمیں فوجی انقلاب آیا جس نے تنگ نظر قوم پرست بدھوں کو مسلم دشمنی پر اکسایا، 1982ءمیںحکومتی سطع پر رونگیا مسلمانوں کی شہریت منسوخ کرکے مسلمانوں کی دنیا اندھیرکردی گئی، آزادی برما کے بعد سے اب تک اراکانی مسلمانوں کے خلاف بیس بڑے فوجی آپریشن ہوچکے ہیں، جون 2012ءکے خونی آپریشن کے بعد مسلمانوں کے 73گاو ¿ں نذرآتش کیے گئے، ایک ہزار چار سو اکاون(10,451)گھر تباہ کیے گئے، چوہتر مساجد (74) شہید کی گئیں، تہتر (73)سکول جلائے گئے، ایک ہزار ایک سو تیس (1,130) مساجد پر قبضہ کیا گیا۔روہنگیا مسلمانوںنے صحافیوں کو آگاہ کیا کہ پانچ روزہ دورہ پاکستان کے دوران وزیرداخلہ چوہدری نثار، مشیربرائے خارجہ امور سرتاج عزیز،راجا ظفرالحق، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مولانا عطاءالرحمان،مسلم لیگ (ق)پنجاب کے صدر چوہدری پرویز الہی، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، مسلم لیگ (ق)سندھ کے جنرل سیکرٹری بابو سرور سیال ، انصار برنی ٹرسٹ کے چیئرمین سماجی راہنماءانسار برنی سمیت دیگر نمایاں سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقاتوں میں برمی مسلمانوں کا موقف پیش کیا گیا، حکومت ِ پاکستان اور پاکستانی عوام کا خصوصی طور پر شکریہ اداکرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے وفد نے مسلم دنیا کے اہم ترین ملک پاکستان کو اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے او آئی سی کانٹکٹ گروپ برائے روہنگیا میں شمولیت اختیار کرنے کی تلقین کی،روہنگیا وفد کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ مسلم کاز کو سپورٹ کرکے عالمِ اسلام میں بسنے والوں کے جذبات کی ترجمانی کی، انہوں نے پارلیمنٹ میں روہنگیا مسلمانوں کے حق میں قرارداد کی منظوری کے حوالے سے پاکستانی عوام کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور حکومتِ پاکستان سے اپیل کی کہ پاکستان سلامتی کونسل کی قرارداد 238/64کا نفاذ یقینی بنانے کیلئے عالمی برادری کو متحرک کرکے برمی حکومت پر سفارتی دباو ¿ ڈالے تاکہ اراکانی مسلمانوں کی نسل کشی بند کی جائے اور متاثرہ صوبے اراکان میں اقوام متحدہ کے امن دستے متعین کیے جائیں،وفد نے پاکستانی حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کیلئے مالی امداد کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ پاکستان میں یوم یکجہتی برائے روہنگیامسلمان منایا جائے اورروہنگیا مسلمانوں کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں اسکالرشپ فراہم کیے جائیں، دیگر ہمسایہ ممالک میں پناہ گزینوں کے حوالے سے شیخ عبداللہ معروف نے کہا کہ جو روہنگیا مسلمان ملائشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے ساحلوں پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں انہیں مکمل ریفیوجی حقوق اور انسانیت کے نام پر پناہ دی جائے ۔وفد نے تھائی لینڈ اور ملائشیا میںاجتماعی قبروں کی دریافت کے حوالے سے تحقیقات کرکے ذمہ داران کا تعین کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کا کیس عالمی عدالت میں پیش کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا ۔انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ انہیں دورہ پاکستان کے دوران حکومتی و عوامی سطع پر تمام مکاتبِ فکر کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، میڈیا نمائندوں نے بھی مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے مسائل اجاگر کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا