اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وہ کیا چیز تھی جس نے مسلم لیگ نواز کو رات گئے متنازع صدارتی حکم نامہ جاری کرنے پر آمادہ کیا ، فاٹا سے ایک نشست جس پر حکمران جماعت نے نظریں جمائی ہوئی تھیں یا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے انتخابات؟اس کا جواب مختلف تھا یعنی اس کا انحصار اس بات پر تھا کہ آپ کس سے پوچھتے ہیں۔حکومت کے معتبر ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کابینہ اراکین کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہر ممکن طریقے سے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔گزشتہ ہفتے سعودی فرمانروا کی جانب سے دورے کا دعوت نامہ ملنے کے بعد وزیراعظم خود سعودی عرب کے پہلے سرکاری دورے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے تھے۔تاہم وفاقی وزراء4 جیسے پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور کے پی گورنر سردار مہتاب احمد عباسی بدستور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی حمایت کے حصول کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطوں میں مصروف رہے۔ایک حکومتی ذرائع نے بتایا \” بدھ کو پورا دن حکومتی وزراء4 ہر ممکن کوشش کرتے رہے تاکہ فاٹا کے لیے حکومتی امیدوار کے لیے حمایت حاصل کرسکیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، دوسری جانب پارٹی کے قانونی ماہرین کو صدارتی حکم نامے پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی جو کہ رات گئے جاری ہوا\”۔جب پوچھا گیا کہ کیا وزیراعظم کو متنازعہ صدارتی حکم کے معاملے پر اعتماد میں لیا گیا تھا تو حکومتی ذرائع کا کہنا تھا \” جہاں تک مجھے معلوم ہے وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے حمزہ شہباز وزیراعظم نواز شریف اور اپنے والد سے رابطے میں تھے جو اس وقت سعودی عرب میں تھے جب یہ فیصلہ کیا گیا\”۔حکومت کی کوششوں کی تصدیق کرتے ہوئے فاٹا سے ن لیگ کے ایم این اے شہاب الدین خان نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیون کو بتایا \” ہم نے مشترکہ گرانڈ کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی تاہم ہمارے پاس آخر میں صدارتی حکم نامہ جاری کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا\”۔فاٹا کے اراکین اسمبلی کے ایوان میں پارلیمانی رہنماء4 سید غازی گلاب جمال نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نئی ووٹنگ اسکیم کے تحت فاٹا کے تین ایم این ایز ایک سینیٹر کو منتخب کرسکتے تھے جو کہ حکمران مسلم لیگ ن کے لیے بہترین طریقہ کار تھا کیونکہ اس کے قبائلی علاقوں سے تین اراکین ایوان میں موجود ہیں۔سینیٹ کے نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے حوالے سے سید غازی گلاب جمال نے کہا کہ جب حکومتی وزراء اپنے امیدوار کے لیے فاٹا کے آزاد اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو \” وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فاٹا کے سینیٹر سینیٹ کے اعلیٰ ترین عہدوں کے لیے ان کے امیدواروں کی حمایت نہیں کریں گے\”۔ایسا نظر آتا ہے کہ سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر اکثریتی پی پی پی اور حکمران مسلم لیگ ن کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔حکومتی کوششوں کی تفصیلات کا انکشاف کیے بغیر سید غازی گلاب جمال نے کہا کہ حکومت ہر حد تک گئی مگر ناکام رہی، تاہم آخری کوشش کے طور پر اس نے صدارتی حکم کا آپشن اپنا لیا۔اس وقت قومی اسمبلی میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے گیارہ اراکین ہیں اور غازی گلاب جمال چھ اراکین کے گروپ کی سربراہی کررہے ہیں جو اپنی پسند کے چار سینیٹرز کے انتخاب کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔ایک ایم این اے کے پاس چار ووٹوں کے اختیار کے باعث مسلم لیگ ن کے تین سمیت باقی پانچ ایم این ایز غیرموثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے حوالے سے غازی گلاب جمال نے ڈان کو بتایا کہ چار امیدواروں کی حمایت ان کے رشتے دار ایم این ایز کررہے ہیں اور اس کو دیکھتے ہوئے ووٹوں کی خرید و فروخت سمجھ سے بالاتر ہے۔مثال کے طور پر انہوں نے بتایا کہ ایک امیدوار تاج محمد رکن قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل آفریدی کے بھائی ہیں، جبکہ مومن خان ایم این اے ناصر خان کے بھائی ہیں، اسی طرح ایک امیدوار سجاد طوری ساجد طوری کے رشتے دار ہیں اور \” میں اورنگزیب کی حمایت کررہا ہوں، کیا ایک بھائی اپنے بھائی سے پیسوں کا مطالبہ کرسکتا ہے؟\”ان کے بقول ہارس ٹریڈنگ کا معاملہ ان افراد نے اٹھایا ہے جو اس بار فاٹا سے ووٹوں کو خریدنے میں ناکام رہے اور یہ معاملہ عوامی نظر میں نہیں آیا۔خیال رہے کہ فاٹا کی چار نشستوں کیلئے 36 امیدوار میدان میں اترے لیکن صدارتی آرڈیننس کے اجراء4 کے بعد انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی پر فاٹا ارکان اسمبلی دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔جس پر رٹیرنگ افسر عثمان مروت نے پولنگ کا عمل روک دیا اور الیکشن کمیشن سے فاٹا کے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔جس پرچیف الیکشن کمیشنر کے زیرصدارت اجلاس میں ریٹرنگ افسر کی درخواست کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد فاٹا کے انتخابات غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردئیے۔