اسلام آباد(این این آئی) پشاور ہائی کورٹ نے بلے کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا۔ بدھ کو پشاور ہائیکورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کر لی۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اعجاز خان نے سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا ۔
یاد رہے کہ 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ‘بلے’ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مؤقف سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع جاری کرنے پر اعتراض کیا تھا۔دو جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔بدھ کو سماعت کے موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند اور پی ٹی آئی کے وکیل قاضی انور اور شاہ فیصل اتمان خیل عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس اعجاز نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل ہم نے سن لیے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں سماعت سننے کے لیے آیا ہوں۔
پی ٹی آئی کے وکیل قاضی انور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن جوڈیشل ادارہ نہیں، اپنے فیصلے کے حق یا مخالف میں آنا توہین عدالت ہے، گزشتہ روزاس کیس میں مشال یوسفزئی پیش ہوئی وہ اس کیس میں وکیل نہیں ،گھر سے روانہ ہوا تو ہائیکورٹ کے قریب 4 مرتبہ تلاشی لی گئی، گاڑی کی ڈگی تک کی تلاشی لی گئی۔انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ضیا ء الحق اور مشرف کے مارشل لا میری فیملی کو کسی نے کچھ نہیں کہا میں نظر بند رہا،قید و بند برادشت کیں، جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ ہائی کورٹ کے اطراف میں اضافی سیکیورٹی پر وکلا نے رٹ دائر کی ہے، آئی جی پولیس کو بلایا ہے، الیکشن کمیشن نے کل چار اعتراضات عائد کیے ہے۔الیکشن کمیشن وکیل نے کہا کہ قاضی انور میرے سینئر ہیںاور میں نے پریکٹس ان کے ساتھ شروع کی ہے، مشال اس کیس کی وکیل نہیں ہے ،میں اور بیرسٹر گوہر اس کیس کا وکیل ہے، جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ عدالت کا کام ہے قانون کی تشریح کرنا ہے،قاضی انور نے کہا کہ عدالت آتے ہوئے 4 بار میری تلاشی لی گئی ہے جس طرح کوئی مارشل لاء لگی ہوئی۔
جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ عدالت کے باہر جو ہوتا ہے اس سے ہمارا کوئی کام نہیں ہے۔وکیل قاضی انور نے استدلال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ہائی کورٹ آرڈر کے خلاف عدالت اسکتا ہے، 26 جنوری کو عدالت کے آڈر پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا ہے، ابھی تک الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا ہے، 3 جنوری ہے 9 جنوری میں بہت کم دن رہ گئے ہے، ہمارے امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے ، الیکشن کمیشن بتائے انہوں نے کیا کیا ہے، پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔وکیل قاضی انور نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے استدعا کی ہے کہ 26 دسمبر کا آڈر واپس لیا جائے ، الیکشن کمیشن کو 26 دسمبر کے آڈر سے کیا مشکلات ہے، یہ کیس 9 تاریخ کو ڈویڑن بینچ سننے، جب انہوں نے ویب سائٹ پر سرٹیفکیٹ پبلش نہیں کیا تو انکو مسئلہ کیا ہے۔جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ یہ اب ان سے ہم پوچھیں گے، قاضی انور ایڈوکیٹ نے کہا کہ ایک پارٹی کو ایک طرف کرنا الیکشن کمیشن اور جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاھئے تھا، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروائے، خواتین کی مخصوص نشستوں اور اقلیتی نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ریلف ملا۔
قاضی انور نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ انتخابات کو صاف و شفاف اور دیانتداری کے ساتھ منعقد کیا جائے، جاوید ہاشمی کے کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جب کاغذات نامزدگی کے ساتھ ہی الیکشن کا عمل شروع ہو جاتا ہے، رزلٹ کا نوٹیفکیشن آنے تک یہ الیکشن ہوتا ہے۔جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ آپ کے دو نقطے ہے، کیا الیکشن کمیشن عدالت کے ھکم امتناع کے خلاف نہیں آسکتے ہے، جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ دوسرا نقتہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس آڈر سے کی مشکلات ہے۔قاضی انور نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اسی طرح کا کیس تھا، لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہی کہا کہ اس میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ اس کیس کو 9 جنوری کو دیکھے گے، میں نے سنا ہے کہ الیکشن کمیشن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے۔جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کیا کہ الیکشن کمیشن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے، قاضی انور نے کہا کہ ایم ون اور این ٹو موٹر وے دھند کے باعث بند ہے ، بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر دھند کے باعث پیش نہیں ہوسکے۔جسٹس اعجاز خان نے قاضی انور سے استفسار کیا کہ مجھ سمیت دیگر وکلاء کے آپ استاد ہے ، میں ٹی بریک تک بیٹھا ہوا ہوں، قاضی انور، ٹی بریک نہیں کرتے، کام ختم کرتے ہیں۔انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار کے وکیل نوید اختر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی چارسدہ کا وائس پریزیڈنٹ تھالیکن عدالت میں درخواست جمع کرتے ہی تو ان کی ممبر شپ کو ختم کردی گئی، درخواست گزار جہانگیر نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر درخواست دی، پی ٹی آئی نے رولز اور پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں منعقد کیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کمیشن کے پاس اختیارات ہیں، میرا ہر سوال سپریم کورٹ کے فیصلے پر مبنی تھا، انہوں نے ہمارے آرڈر پر حکم امتناع لیا ہے ہمیں حق ہے اس کے خلاف رٹ دائر کرنے کا، الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کو لسٹ سے نہیں نکال رہا، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ہمار ے قوانین کی پاسداری آپ نے نہیں کی۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ 20دیگر سیاسی پارٹیاں ہیں جنھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد نہیں کروائے یا رولز کے مطابق نہیں تھے، ان تمام پارٹیوں کو شوکاز ملا ہے، ان کے خلاف الیکشن کمیشن نے کیا کارروائی کی ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حنیف عباسی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن خودمختار ادارہ ہے اور اختیارات استعمال کرسکتا ہے، پی ٹی آئی کی درخواست میں الیکشن کمیشن فریق نمبر ون ہے، الیکشن کمیشن نے کہاں ہے کہ یہ لسسٹڈ پارٹی ہے اور پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے پارٹی کو لسٹ سے نہیں نکالا، پارٹی انتخابات کو آئین کے مطابق نہ کرنے پر اس کو کالعدم قرار دیا، پارٹی کو لسٹ سے نکالنے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی ہے، پشاور لاہور ہائیکورٹ میں اس قسم کے درخواست زیر سماعت ہے۔
جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ درخواست تو ابھی زیر سماعت ہے، معاملہ 2 رکنی بنچ دیکھے گا، پشاور ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل کا ا?غاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن صحیح طریقے سے نہیں کرائے، الیکشن کمیشن کے اختیارات پر سوال اٹھائے گئے، سنگل بینچ نے الیکشن کمیشن کو سنے بغیر انتخابی نشان سے متعلق اس کا فیصلہ معطل کیا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے لاہورہائی کورٹ میں بھی درخواست دائرکی، ایک عدالت منتخب کی تو پھر دوسری میں نہیں جا سکتے، اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ہیں۔
جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے کوئی ایسا آرڈر دیا کہ کیا ایک ہائی کورٹ کا حکم پورے ملک کے لیے ہوتا ہے، اخبار میں پڑھا تھا، کیا ایسے کوئی حکم ہے بھی؟سکندر مہمند نے کہا کہ بالکل، سپریم کورٹ نے آر اوز سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کیا تھا، پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ یکطرفہ کارروائی کے تحت فیصلہ معطل کیا گیا، دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ انٹرم ریلیف اور حتمی استدعا ایک ہی ہے۔جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ کیس میں اصل درخواستگزار کہاں ہے؟ سکندر مہمند نے جواب دیا کہ مجھ معلوم نہیں، شاید وہ خود پیش نہیں ہوئے۔جسٹس اعجاز خان نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے، 9 جنوری کو ڈویژن بنچ کے لیے لگا ہے۔سکندر مہمند نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا ہے کہ کوئی فیصلہ دیا جائے، صرف معطلی کا فیصلہ واپس لیا جائے، پھر ڈویژن بینچ کے سامنے کیس پر دلائل دیں گے، 9 جنوری تک معطلی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔