اسلام آباد(این این آئی)سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔تفصیلات کے مطابق جمعرات کوخصوصی عدالت میں سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت اور اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران معاون وکیل ایف آئی اے کی جانب استدعا کی گئی کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز نے سپریم کورٹ میں پیش ہونا ہے لہذا سماعت 12بجے مقرر کر دی جائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز نے خود کہا10بجے سماعت شروع کر لیں،فیس نہیں ملی تو ہمارا قصور نہیں ہے۔جج ابوالحسنات نے معاون وکیل ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ایک اسپیشل پراسیکیوٹر کو مدعو کر لیں،باقی بھی پہنچ جائیں گے۔سیکریٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کی سماعت 12بجے کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی وکلا کو اسپیشل پراسیکیوٹرز کی غیر موجودگی میں دلائل دینے کی اجازت دیدی جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز ذوالفقار نقوی اور رضوان عباسی کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ سائفر کیس کی درخواست ضمانت پر زیادہ سے زیادہ 45منٹ لوں گا جبکہ اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون وکیل دوبارہ کمرہ عدالت پہنچ آئے اور سماعت میں وقفہ کرنے کی استدعا کی جس پر جج نے کہاکہ جب آپ فری ہیں تو پی ٹی آئی وکلا فری نہیں،درخواست ضمانت پر سماعت تو ہو گی۔پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ تین مختلف اسپیشل پراسیکیوٹرز موجود ہیں،ہمیں دلائل دینے کی اجازت دی جائے جس پر فاضل جج نے کہاکہ میں چاہتاہوں پی ٹی آئی وکلا اور اسپیشل پراسیکیوٹرز دلائل دیں،میں تو درخواست ضمانت پر دلائل ضرور سنوں گا، پراسیکیوشن دلائل دے نہ دے، درخواست ضمانت پر فیصلہ میں محفوظ کر لوں گا۔وکیل صفائی بابر اعوان نے کہاکہ اسد عمر تحریری طور پر شامل تفتیش ہوئے ہیں جبکہ اسد عمر بھی روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے کہاکہ میں نے تو خود ایف آئی اے کو خط لکھ کر پوچھا کہ بتائیں شامل تفتیش ہونے کب اور کدھر آنا ہے۔
بابر اعوان نے کہاکہ اسد عمر براہ راست سائفر کیس کے مقدمے میں نامزد نہیں، 22اگست کو اسد عمر کی درخواست ضمانت دائر کی تھی،رواں سال مارچ میں سائفر کی انکوائری کو شروع ہوئے ایک سال ہوا۔اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون وکیل نے اسد عمر کے شامل تفتیش ہونے پر اعتراض اٹھایا جبکہ جج کاکہناتھاکہ میں نہیں سنوں گا، معذرت ہے، درخواست ضمانت پر دلائل ہوں گے۔پراسیکیوشن کے معاون وکیل نے کہاکہ اسد عمر کو ایف آئی اے خود آنا تھا،تفتیشی افسر کو ان کے پاس نہیں آنا تھا، ابھی اسد عمر کے کردار پر سائفرکیس میں تفتیش مکمل کرنی ہے۔سیکریٹ عدالت کے جج نے کہاکہ ایک ضمانت کے باعث دیگر ضمانتیں بھی نہیں سنی جا سکیں جس پر پراسیکیوشن کے معاون وکیل نے کہاکہ اسد عمر کو مچلکے جمع کروا کر تفتیشی افسر کے پاس جانا تھا،اسد عمر درخواست ضمانت منظور اور توسیع کے بعد شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
اسدعمر نے کہاکہ دو بار ایف آئی اے نے بلایا،گزشتہ سال دسمبر اور حال ہی میں بلایا،ایف آئی اے نے ایک اور دو گھنٹوں پر محیط تفتیش کی،شامل تفتیش ہونے کے بعد ایف آئی اے نے کہا اسد عمر کا کردار نہیں۔سابق وفاقی وزیر نے کہاکہ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے جس پر جج ابو الحسنات نے کہاکہ اسد عمر کو کمرہ عدالت میں شامل تفتیش کرنا ہے تو کر لیں، سماعت تو ملتوی نہیں ہونی،اسد عمر، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی درخواستوں پر فیصلہ کر کے رہوں گا،جتنی مرضی درخواستیں دینی ہیں دے دیں، تمام درخواستوں پر فیصلے سنائوں گا۔اسپیشل پراسیکیوٹرز کے معاون وکیل نے تینوں ضمانتوں پر دلائل اکٹھا سننے کی استدعا کر دی جس پر جج نے کہاکہ دو ضمانت اور ایک ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں الگ الگ سنی جائیں گی، جائز بات کریں، عدالت کو بتائیں اسدعمر کا کردار براہ راست نہیں تو مقدمے میں نامزد کیوں کیا؟اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے شاہ خاور کمرہ عدالت میں پہنچے اور وکیل سلمان صفدر کے دلائل کے دوران مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ اسد عمر کی کیس میں تاحال گرفتاری مطلوب نہیں ہے،اسد عمر کے خلاف کوئی ثبوت ابھی موجود نہیں ہے،اسد عمر کی درخواست ضمانت پر دلائل سننے ہیں تو عدالت کی مرضی،تفتیش کے دوران اگر کوئی ثبوت ملا تو اسدعمر کو آگاہ کیا جائے گا۔
وکیل بابراعوان نے استدعا کی کہ ایف آئی اے کے پاس ثبوت ہی نہیں تو ضمانت کنفرم کر دی جائے جس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اسد عمر کی درخواست ضمانت پر اوپن کورٹ میں فیصلہ لکھوایا۔جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہاکہ پراسیکیوشن کے مطابق اسدعمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں ہیں،اسد عمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا،ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اسد عمر کی گرفتاری مطلوب نہیں ہے، اگر اسدعمر کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق چلے گی،گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے اسدعمر کو پہلے آگاہ کرے گی۔سیکریٹ عدالت نے اسد عمر کی ضمانت 50ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض کنفرم کر دی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسر ہے،وزارت داخلہ نے سائفر کیس ہائی جیک کیا،سائفر واشنگٹن سے بھیجا گیا جس کی وصولی وزارتِ خارجہ نے کی۔انہوں نے کہا کہ تاریخ میں اتنا کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جتنا چیئرمین پی ٹی آئی کو بنایا گیا،چیئرمین پی ٹی آئی محب وطن ہیں،انہوں نے بطور وزیراعظم ملک کی خود مختاری کا سوچا،چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف 180سے زائد کیسز درج کیے گئے، 140سے زائد کیسز چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سے قبل درج کیے گئے، ایف آئی اے نے جھوٹے مقاصد اور اٹھارٹی کا غلط استعمال کرتے ہوئے سائفر کیس کا مقدمہ درج کیا،سائفر کیس کے مقدمے میں سب کے نام جلد بازی میں نامزد کیے گئے۔
انہوں نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی پر سائفر کیس میں ذاتی مفادات لینے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے،مقدمے میں اعظم خان کا ذکر بھی ہے،کیا اعظم خان عدالت میں ہیں؟ کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی؟وکیل عمران خان نے کہاکہ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا،پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے قومی سلامتی کو کیا نقصان ہوا،الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کو اپنی تحویل میں رکھا،کیس ہے کہ سائفر غلط رکھا اور غلط استعمال کیا، ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے، پراسیکیوشن کو یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ سائفر کیس سے بیرون ملک طاقتیں مضبوط ہوئیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ سائفر کیس سیکرٹ ایکٹ 1923کے تحت درج ہوا،کمرہ عدالت میں موجود کوئی بھی1923میں پیدا نہیں ہوا ہو گا، جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے جملہ کسا کہ میرے والد 1923میں پیدا ہوئے تھے، شاہ خاور کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاکہ جو توشہ خانہ کیس کی کڑی میں پھنس گئے ہیں،انہیں پراسیکیوشن اندر رکھنا چاہتی ہے، ڈیڑھ سال سائفر کیس کی تحقیقات ہوئیں، مقدمہ تب بنایا جب چیئرمین توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے، سائفر کیس سیاسی انتقام لینے کے لیے بنایا گیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی ذمہ دار وزیراعظم رہے،چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں، انہوں نے 71سال کی عمر میں جرم کی دنیا میں پیر رکھا۔
اپنے دلائل میں وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ گزشتہ سماعت پر انسدادمنشیات کے جج نے بطور ایڈمنسٹریٹیو جج سماعت کی،ایڈمنسٹریٹیو جج نے کہاکہ یہ تو انسدادمنشیات کی عدالت ہے،میں نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی پر صرف منشیات کا کیس بنانا ہی رہ گیا ہے،منشیات کے کیس سے متعلق وکیل سلمان صفدر کے جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔سلمان صفدر نے کہاکہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی کام نہیں کیا،سائفر ہے کیا؟بیشک کوڈڈ دستاویز ہوتی جس میں کمیونیکیشن ہوتی ہے۔جج الو الحسنات نے کہاکہ سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے،اسے عام انسان نہیں پڑھ سکتا۔فاضل جج نے کہاکہ وزارت خارجہ سائفر کی وصولی کرتا ہے،سائفر آیا اور کہاں گیا؟سائفر کیس یہ ہے،سائفر کے 4نقول آتے ہیں جن میں آرمی چیف، وزیراعظم شامل ہوتے ہیں۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ آج کسی کلبھوشن یا ابھی نندن کا کیس نہیں سنا جا رہا، سائفر کیس بہت خطرناک بنایا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923تو لگتا ہی نہیں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں،سابق وزیراعظم ہیں، دوران ٹرائل معلوم ہو گا کہ سائفر پر بیان سے ملک کو بچایا یا ملک دشمنوں کی سہولتکاری کی،جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شیئر کرنا ہے،اس کیس میں سیکریٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا، ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، امید صرف عدالت سے ہے۔جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دئیے کہ دو کیٹیگریز کی لسٹ ہے،بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟ سائفر کیس پورا اس پر ہے، اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سیکشن 3اے لاگو ہوتی ہے، سائفر وزارت خارجہ سے وزیراعظم کو ملا لیکن سائفر ہے کہاں؟ وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے۔
سلمان صفدر نے کہاکہ سائفر کیس میں ملک دشمن عناصر سے کچھ بھی شیئر نہیں کیا گیا، قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اگر رات گئے بھی بیٹھنا پڑے تو کوئی نہیں گھبرائے گا، اب معلوم کرنا ہے سائفر کیس سیکشن 3اے کا ہے یا سیکشن 3بی کا، پراسیکیوشن بتائے کہ بیرون ملک کس کو چیئرمین پی ٹی آئی کے سائفر پر بیان سے فائدہ ہوا،ایف آئی اے نے قانون کو توڑ مروڑ کر سائفر کیس بنایا جو قابل ضمانت ہے، سائفر کیس تو بنایا ہی بیرون ملک طاقتور کے ساتھ معلومات شیئر کرنے پر ہے،ایسا تو کچھ بھی نہیں۔انہوں نے کہاکہ کیس بنتا ہے تو پوری کابینہ پربنتا ہے،فرد واحد پر نہیں بنتا، 7مارچ 2022 کو سائفر وزارت خارجہ کو موصول ہوا، وزیراعظم ہائوس کے آفیشلز کی ذمہ داری ہے کہ پتہ کریں سائفر کدھر گیا،سائفر کی ذمہ داری وزیراعظم کی نہیں بنتی،ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی بنتی ہے،
سائفر سامنے لانا جرم ہوتا تو 31مارچ 2022کو قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے کیوں رکھا جاتا؟انہوں نے کہاکہ سائفر کا مسئلہ قومی سلامتی کمیٹی میں رکھا گیا،فیصلہ ہوا غیر ملکی سفیرسے بات کی جائے گی، کمیٹی متفقہ طور پر فیصلہ کرتی ہے کہ سائفرکے نکات کیا ہیں،کابینہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرتی ہے، کابینہ کے منٹس ریکارڈ پرموجود ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ میں سائفر کیس زیر بحث آیا، سپریم کورٹ نے تو نہیں کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفرکیس درج کیا جائے، سائفر عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا، اس کے نکات شیئر نہیں ہوئے، چیئر مین پی ٹی آئی پر الزام لگایا گیاکہ سائفر کو لہرایا گیا،وزارت خارجہ کے مطابق سائفر ان کے پاس موجود ہے،
تاحال چیئرمین پی ٹی آئی سے سائفر کیس میں کچھ برآمد نہیں ہوا۔وکیل عمران خان نے اپنے دلائل میں کہاکہ مجھے بخدا معلوم نہیں تھاکہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کیس میں گرفتار ہیں، عطا تارڑ نے ٹی وی پر کہا چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں،عجیب بات ہے کہ سائفر کیس میں عطا تارڑ کو چیئرمین پی ٹی آئی کا معلوم ہے لیکن وکلا کو نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کا کیس تو بنتا ہی نہیں ہے،سائفر اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس نہیں ہے،پراسیکیوشن کو کیسے معلوم ہوا کہ سائفر اصلی تھا،اصلی سائفر لائیں۔سلمان صفدر نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی تعلیم یافتہ افراد ہیں،بیرون ملک سے پڑھے ہوئے،نام کیا ہے ملک دشمن کا جس کو سائفر سے فائدہ ہوا؟ بتائیں تو صحیح۔بعد ازاں شاہ محمود قریشی کی جانب سے بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے جو مقدمہ درج کرایا اس میں شاہ محمود قریشی کا ذکر تک نہیں ہے، شاہ محمود قریشی کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے کہاکہ اگرکوئی عدالت سے دستاویزگم جائے تو صرف جج کی انکوائری نہیں ہوتی، سائفر آیا، وزیرخارجہ نے مجھے بتایا تو ذمہ داری ہے کہ کابینہ کو بتایا جائے، جس پر جج ابو الحسنات نے پوچھا جب سائفر موصول ہوا تو پھر کدھر گیا؟ وکیل علی بخاری نے کہا کہ 12دن کا شاہ محمود قریشی جسمانی کا ریمانڈ دیا گیا، اب بھی جیل میں ہیں،شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑیاں لگاکریہاں لایا گیا تاکہ ذلیل کیا جا سکے۔ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز کی جانب سے عدالت میں عمران خان کے بیان کی ویڈیو دکھائی گئی اور سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔بعد ازاں خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے پہلے سے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کر دیں۔