منگل‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شہریوں کے ملٹری ٹرائل کا کیس: حکومت کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد

datetime 18  جولائی  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔

منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے مذکورہ درخواستواں پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹرم پر آئے، انہوں نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔عابد زبیری نے کہا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں، میری 5 معروضات ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بات کر سکتے ہیں، جو بولنا ہے بتائیے، آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا۔

عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 83 اے کے تحت سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا، عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی جانب دلانا چاہتا ہوں، 1999 میں سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کے مطابق صرف فوجی اہلکاروں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلنز کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکارہوگی۔

عابد زبیری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کی بات کی تھی، بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سوال ہے کہ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ اپنا موقف واضح کریں کہ کیا ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کیلئے کافی ہوگا؟

کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟عابد زبیری نے کہا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کے لیے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا، فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے مؤقف کو خلاصے میں بیان کرسکتے ہیں، اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟

عابد زبیری نے کہا کہ گزارش یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، 9 مئی پر کچھ لوگوں پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو ہوا کچھ پر نہیں، اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خصوصی عدالت سے مراد آپ کی وہ عدالت ہے جو ہائی کورٹ کے ماتحت ہو؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشل نہیں ایگزیکٹو اراکین ہوتے ہیں، ٹرائل کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے، اکیسویں آئینی ترمیم ایک خاص مدت کے لیے تھی، آرٹیکل 175/9 کے تحت سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے ترمیم ضروری ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اگر ملزمان کا اندرون تعلق ثابت ہو جائے تو کیا ہوگا؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کے لیے خاص ترمیم کرنا ہوگی، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، ہمیں معلوم نہیں کہ ملزمان کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا پیمانہ کیا ہے، فوجی عدالتوں میں مقدمات سننے والے جوڈیشل کی بجائے ایگزیکٹو اراکین ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کے لیے تھیں، 21ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے اجازت تو دی تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ میں ریویو کا اختیار بھی دیا، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیار یا اختیارات سے تجاوز پر بدنیتی کی بنیاد پر جوڈیشل ریویو کا اختیار دیا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے پولیس گرفتار کر کے عام عدالتوں میں فرد جرم لگوائے پھر معاملہ ملٹری کورٹس جائے؟

عابد زبیری نے کہا کہ قانون میں ملزم کا لفظ ہی ہے جب تک فرد جرم عائد نہ ہو بندہ مجرم نہیں ہوتا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتا ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیاقت حسین کیس میں کہا گیا ملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پر نہیں؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے، پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔

عابد زبیری نے مختلف امریکی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی فوج کی جانب سے حراست بھی غیر قانونی ہے۔دریں اثنا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے؟اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینے کا ا?غاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کے وکیل نے ایف بی علی اور 2 مزید فیصلوں پر بات کی، عدالت کے سامنے اکیسویں آئینی ترمیم اور لیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا، لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بینچ تھا، میں عدالت کے 23 جون کے حکمنامے کو پڑھوں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس بات کی خوشی ہے کہ آرمی کے زیرِ حراست افراد کو خاندان سے ملنے دیا جارہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا، انہوں نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا، جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ میں دیگر بینچ اراکین کے بینچ پر اعتراض کا تذکرہ کیا گیا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ 26 جون کا حکم نامہ بھی پڑھیں، وفاقی حکومت نے خود بینچ کے ایک رکن پر اعتراض کیا، کیا اب حکومت فل کورٹ کا کہہ سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے اس پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کون فیصلہ کرے گا کہ کون سے ججز دستیاب ہیں؟

آپ خود مان رہے ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس کریں گے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ بینچ اس کیس کو سن چکا ہے، آپ اپنی گزارشات جاری رکھیں، کافی حد تک موجودہ بینچ یہ کیس سن چکا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں 17 سے زیادہ ججز اس کیس کے لیے دستیاب ہوں جو کہ ممکن نہیں۔دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کو لقمہ دیا، اٹارنی جنرل نے عرفان قادر کو بیٹھنے کی ہدایت دی۔دریں اثنا عدالت نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔



کالم



دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام


شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…