بغیر تصدیق آڈیوز پر پریس کانفرنس کرنیوالے وزیر کو استعفی دینا چاہیے، سپریم کورٹ

6  جون‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل کے خلاف مختلف درخواستوں پر سماعت کے دوران بینچ پر اعتراض سے متعلق سماعت مکمل کر لی جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے،

پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں۔منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی چار درخواستوں پر سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری سیکرٹری مقتدر شبیر اور ایڈوکیٹ حنیف راہی نے کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جبکہ حنیف راہی نے کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔وفاقی حکومت نے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی شمولیت پر اعتراض اٹھا رکھا ہے۔ سماعت شروع ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ججز کسی صورت پارٹی نہیں بن سکتے۔حنیف راہی ایڈوکیٹ نے دلائل دئیے کہ میری تو ہین عدالت کی درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگاجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تو دور کریں، آپ یہ بھی سمجھیں کہ کس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں، جج کو توہین عدالت کی درخواست فریق نہیں بنایا جا سکتا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے، انہوں نے حکومت کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراضات پڑھ شروع کر دئیے۔اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایاجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں

چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضے کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے، جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا، ان نکات پر آپ دلائل دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازع ہیں؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کا کنفلکٹ ہے، میں چاہوں گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنا دئیے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا گیا ہے۔جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟ سینئر کابینہ ممبر نے تو اس پر پریس کانفرنس بھی کر دی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کر چکے؟ پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا قانونی طور پر درست ہے، جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتہ وہ بینچ پر اعتراض اٹھائے، میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی

کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسے بیان کے بعد تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟ میرے علم میں نہیں اگر پریس کانفرنس کسی نے کی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اتنے اہم ایشو پر کابینہ کا اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی

وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت یہ دیکھے کہ وزیر داخلہ کا بیان 9 مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا،چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ ٹوئٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے، کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتا کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں؟چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے کہاکہ کون یہ سب کر رہا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے، پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کے نام لے کر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دئیے کہ حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی، کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں، کمیشن کے ذریعے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدائی سطح پر ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کے مطابق یہ مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر وزیر خزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے، اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بے نظیر کیس میں بینچ پر اعتراض نہیں ہوا، کیا اس کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیا جن کی کالز ٹیپ ہوئیں؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراؤ کا ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کارروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟جسٹس منیب اختر نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کیس سننے والے 7 میں سے 4 ججز کے فون ٹیپنگ کی گئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ کوئی بھی شخص اپنے کاذ کا خود جج نہیں ہوسکتا، ہماری اس سارے معاملے پر کوئی بدنیتی نہیں ہے، بینچ تبدیل ہونے سے کمیشن کے خلاف عدالت آئے درخواست گزاروں کا حق متاثر نہیں ہوگا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں، جس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ آپ کا اعتراض دو اور ججز پر بھی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے اس کا جائزہ لے لیں۔

بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو گئے۔ درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل شروع کرتے ہوئے بتایا کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں۔شعیب شاہین نے کہا کہ ساری آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں

یہ آڈیوز ریکارڈنگ کس نے کیں؟ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعے منظر عام پر لائی گئیں۔وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا وفاقی حکومت الیکشن کیس میں ایک فریق ہے، وہی کمیشن بنا رہی ہے، ٹی او آرز میں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر تو بات تھی۔شعیب شاہین نے کہا کہ یہاں عدالت کے سامنے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، یہاں سوال ایگزیکٹو کی عدلیہ میں مداخلت کا ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ اس بینچ نے کسی کے حق میں یا خلاف فیصلہ نہیں دینا ایک تشریح کرنی ہے۔شعیب شاہین نے کہا کہ جس بنیاد پر بینچ تبدیلی کی درخواست ہے وہ دیکھی، کیا ہم آڈیوز کو پہلے ہی تسلیم کر لیں؟ یہ تو بلیک مینلنگ کا بہت آسان طریقہ ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی فیک آدمی کے ذریعے جعلی آڈیوز بنوا دی جایا کریں گی، اس عدالت نے صرف الیکشن کرانے کا کہا تھا

اس پر آڈیوز آنے لگی اور ٹاک شوز میں کیا نہیں کہا گیا۔شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا اس دوران کہاں ہے، دیکھ لیں پیمرا سے ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں، عدلیہ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی، عدلیہ کی آزادی بہت اہم ہے، لوگ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ لوگوں کے سیاسی نظریات پر ان کے 82 سال کے والد کو اٹھا لیا جاتا ہے، کیا عدلیہ میں ایگزیکٹو ایسے مداخلت کرے گی۔

عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین کے دلائل مکمل ہونے پر درخواست گزار ریاض حسین راہی کے دلائل شروع ہوئے۔عدالت نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر سماعت ملتوی کردی اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت مکمل کرلی، سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔اٹارنی جنرل دوبارہ روسٹرم پر آگئے

انہوں نے دلائل دئیے کہ شعیب شاہین نے جتنے فیصلوں کا حوالہ دیا وہ ججز کی جانبداری پر تھے، حکومت کا بینچ پر اعتراض کا مؤقف ججز کی جانبداری کا نہیں مفادات کے ٹکرائوکا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کے اس حوالے سے عدالتی نظائر کو نظر انداز کیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس بارے میں سوچیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل اور شعیب شاہین کے دلائل کو سراہتے ہیں۔وکیل شعیب شاہین نے استدعا کی کہ حکم امتناع میں توسیع کر دیں

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم امتناع تو برقرار ہے۔عدالت نے بینچ پر اعتراض سے متعلق سماعت مکمل کر لی اور کیس کی سماعت غیر معینہ کے لیے ملتوی کردی۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے بتایا کہ درخواست کے اوپر کیا فیصلہ کرنا ہے؟ یہ سوچیں گے۔خیال رہے کہ 26 مئی کو پانچ ججوں کے بینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی حقیقت کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ تین ججوں کے کمیشن کی کارروائی کو روک دیا تھا۔

اس کے بعد 27 مئی کو آڈیو لیک کمیشن نے سپریم کورٹ کی سماعت کا نتیجہ آنے تک اپنی کارروائی ملتوی کر دی تھی۔درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر عابد زبیری، اس کے سیکریٹری مقتدر اختر شبیر، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھیں، جس میں عدالت سے آڈیو کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…