اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف تجزیہ کار اور کالم نگار رئوف کلاسرا کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر یا نومبر کے مہینے سے پاک سعودی تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے، لیکن یہ خبر تب سامنے آئی جب سعودی عرب نے پاکستان سے ایک ارب ڈالر مانگ لیے، جو پاکستان
نے فورا ًسعودی عرب کو واپس کر دئییاور جنوری فروری میں مزید چیزیں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ اپنے وی لاگ میں انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اندر کی خبر رکھتے ہیں ان کے مطابق یہ بات سامنے آئی تھی کہ جب جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد وزیراعظم عمران خان کا طیارہ خراب ہو گیا تھا تب سعودی شہزادے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنا نجی طیارہ بھیجا تھا جو راستے میں سے واپس بلا لیا گیا تھا جس پر کچھ لوگوں کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ پاک سعودی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے لیکن اب یہ چیزیں واضح ہونا شروع ہوگئی ہیں کہ پاک سعودی تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔رئوف کلاسرا نے کہا کہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب نے جو دو ملین ڈالر پاکستان کے پاس رکھوائے تھے وہ انہوں نے پاکستان سے فوری واپس مانگ لیے ہیں، سعودی عرب کے قرض واپس مانگنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان میں آئل ریفائنری لگانے کے لئے جو بیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری
کرنے تھی وہ بھی اب نہیں کرے گا، پاک سعودی تعلقات میں پیدا کشیدگی میں شاہ محمود قریشی کے اس بیان کا بھی کردار ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ او آئی سی کے مقابلے میں ہمیں کانسلر بنانا چاہتے ہیں کیونکہ سعودی عرب اور دیگر رکن ممالک کشمیر کے معاملے پر ایکٹیو
دکھائی نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے اس پر یہ خیال کیا جارہا تھا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے دورے کا مقصد اعلی سطح کے
ملٹری مذاکرات ہیں لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا مقصد سعودی شہزادے کو رام کرنا تھا اور پاک سعودی تعلقات کو پہلے کی ڈگر پر لانا تھا لیکن وہ ناکام رہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت
چودھری شجاعت حسین کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں لیکن شاہ محمود قریشی اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات نہیں کی۔ تعلقات کی خرابی کی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ تین مہینوں سے پاکستان کا جھکا ئوایران، قطر ،ملیشیا اور ترکی کی جانب زیادہ ہے جس پر سعودی عرب کو اعتراض
ہے کہ یہ تمام ممالک سعودی عرب کے خلاف ہیں اور آپ ان کے ساتھ ہی تعلقات استوار کر رہے ہیں، سعودی عرب کی جانب سے بیل آئوٹ پیکیجزدئیے گئے ہیں جب کہ ان تمام ممالک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، اس کے علاوہ یو این او کی جنرل اسمبلی سیشن
کے دوران عمران خان نے سب سے زیادہ وقت ترکی کے صدر طیب اردوان کے ساتھ گزارا تھا جو سعودی شہزادے کو ناگوار گزرا۔ اپنے وی لاگ میں مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کو پاکستان کی قیادت پر اس لیے بھی غصہ تھا کہ انہوں نے ترکی ڈرامہ ارطغرل کو اردو زبان میں تبدیل کرکے
پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا ہے،جس پر سعودی شہزادے کی جانب سے شدید ردعمل دیا گیا ، سعودی عرب پہلے یہ سمجھتا تھا کہ پوری مسلم دنیا ان کی طرح دیکھتی ہے کہ وہ کیا فیصلہ کریں گے لیکن پاکستان نے اپنا رخ سعودی عرب کی وجہ سے ترکی کی جانب موڑ دیا ہے، جس پر سعودی عرب کی جانب سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لیے پریشان کن صورتحال ہے۔