اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان میں صدیوں سے پیدا ہونے والے باستمی چاول پر بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کی جغرافیائی نشانی ہے، پاکستانی تاجروں کے دبائو پر حکومت نے بھارتی دعوے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں جی آئی ٹیگ کیس کا مقابلہ کرنے
کے لئے برسلز میں مقیم دو بین الاقوامی قانون کمپنیوں ، میسرز ایلٹیوس اور میسرز لیڈیکرک والٹر بروک کرک پٹرک کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جلد ہی حتمی کمپنی کا اعلان کیا جائیگا،اس وقت ، چاول کی عالمی تجارت میں بالترتیب ہندوستان اور پاکستان کے باسمتی کے 65 اور 35 فیصد حصص ہیں۔پاکستان نے تقریباً 18 سال کی تاخیر کے بعد رواں سال مارچ میں جغرافیائی اشارے (رجسٹریشن اور تحفظ)ایکٹ نافذ کیا تھا۔واضح رہے کہ پاکستان میں صدیوں سے پیدا ہونے والے باستمی چاول پر بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کی جغرافیائی نشانی ہے، یورپی یونین میں بھارت نے درخواست جمع کرائی ہے کہ باسمتی چاول اس کی جغرافیائی نشانی ہے اور یہ بھارت کی پیداوار ہے جب کہ یورپی ریگولیشن 2006کے مطابق باسمتی چاول اس وقت تک پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی پیداوار کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ باسمتی چاول پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر کاشت ہوتا ہے اور
اپنی بہترین خوشبو اور ذائقے کی بدولت اسے بھارت کے باسمتی پر فوقیت حاصل ہے۔پاکستانی تاجروں کے دبائو پر حکومت نے بھارتی دعوے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان ہر سال5 سے 7 لاکھ ٹن باسمتی چاول دنیا کے مختلف ممالک کو برآمد کرتا ہے اور بڑی تعداد میں یہ
یورپی ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔پاکستان میں باستمی کی پیداوار کے شواہد 1766 میں لکھے گئے وارث شاہ کے کلام سے ملتا ہے، انگریز دور میں کالاشاہ کاکو میں باستمی پیدا کیے جانے کے شواہد ہیں۔ یورپی یونین نے بھارتی دعوے کی تشہیر اپنی ویب سائٹ پر کی ہے مگر
یورپی قانون کے مطابق 90 روز میں بھارتی دعوے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے، اگر یورپی یونین میں بھارت کا لیبل باسمتی چاول پر لگ گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان یورپ کو یہ چاول باسمتی کے نام سے برآمد نہیں کرسکے گا۔دریں اثنا معلوم ہوا ہے کہ بھارت نے بین الاقوامی منڈی میں ہمالیہ نمک اور ملتانی مٹی کو ہندوستانی ناموں کے ساتھ بھی رجسٹر کرالیا ہے ۔