اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)تحریک انصاف کی حکومت سب سے زیادہ توجہ چینی اور گندم پر دینے کا دعوی کرتی ہے،مگر سب سے زیادہ بدانتظامی بھی ان ہی دو اجناس میں دکھائی دے رہی ہے،جس کی وجہ سے اب تک مجموعی طورپرعوام کو 404ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کی تحقیقات کے مطابق، حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرانے کی وجہ سے چینی مہنگی ہونے کی وجہ سے184روپے کا نقصان ہوا۔ جبکہ گندم مہنگی ہونے اور بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے عوام کو 220ارب روپے کا نقصان ہوچکاہے۔پروگرام کی تحقیق کے مطابق،بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں گندم کابحران آیا اور اس وقت ملک میں آٹے کی قیمت تاریخی سطح پر ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کے پاس چار موقع تھے، جب حکومت بروقت ایکشن لیتی تومہنگی گندم درآمد نہیں کرنی پڑتی۔ پہلے اپریل میں، جب پتا چل گیا تھاکہ گندم کی پیداوار ہدف کے مطابق نہیں ہوئی۔پھر جب مئی میں پروکیورمنٹ بھی ہدف کے مطابق نہیں ہوسکی،اس کے بعد جون میں جب حکومت نے فیصلہ کیا کہ گندم درامد کرنے پڑے گی۔مگر جولائی کے آخر تک فیصلے کا نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں کیااور پھراس کے بعد جولائی میں جب حکومت نے گندم کی درآمد پر ٹیکس
رعائت کا فیصلہ کیا۔مگر پھر بھی درآمد نہیں کی گئی۔جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔قیمتوں میں مسلسل اضافے کا صارفین پر205ارب روپے کااضافی بوجھ پڑا۔ پاکستان میں گندم کاسالانہ فی کس استعمال تقریبا 124کلوہے،یعنی ماہانہ فی کس گندم کا
استعال 10کلو گرام سے زائد ہےاور پاکستان کی آبادی 22کروڑ ہے۔اس لحاظ سے دیکھاجائے تو اکتوبر 2018میں ایک کلو آٹے کی قیمت39روپے25پیسے تھی،جو اکتوبر 2019میں 46روپے 25پیسے ہوگئی،یعنی 7روپے کا اضافہ ہوا،گزشتہ سال اکتوبر میں مہنگے آٹے کی وجہ سے
شہریوں کو 16ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔اسی طرح نومبر 2018میں آٹے کی قیمت 39روپے 25پیسے تھی،جو گزشتہ سال نومبر میں 45روپے 65پیسے ہوگئی۔ایک کلو آٹا 6روپے 40پیسے مہنگا ہوگیا۔شہریوں کو مہنگے آٹے کی وجہ سے 14ارب50کروڑاضافی ادا کرنے
پڑے۔پھردسمبر 2018میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39روپے 3پیسے تھی،جو گزشتہ سال دسمبر میں 45روپے 4پیسے ہوگئی،ایک کلو اٹا 6روپے مہنگا ہوگیا،اور عوام کو 14ارب روپے اضافی دینے پڑے۔اسی طرح جنوری2019میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39روپے 40پیسے تھی۔
جو جنوری2020میں بڑھ کر 48روپے 40پیسے ہوگئی،یعنی ایک کلو آٹا 9روپے مہنگا ہوگیااور عوام کو 20ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔فروری 2019میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39روپے 50پیسے تھی،جو فروری 2020میں 45روپے 50پیسے ہوگئی،یعنی ایک کلو آٹا 6روپے
مہنگا ہوگیا،اور عوام کو14اربروپیاضافی ادا کرنے پڑے،مارچ 2019میں ایک کلو اٹے کی قیمت 39روپے 50پیسے تھی،جو مارچ 2020میں 45روپے ہوگئی،ایک کلو آٹا 5روپے مہنگا ہوگیا۔عوام کو 11ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔اپریل 2019میں ایک کلو آٹے کی قیمت 38روپے
60پیسے تھی،جو اپریل 2020میں بڑھ کر 44روپے 20پیسے ہوگئی،ایک کلو آٹا 5روپے 60پیسے مہنگا ہوگیا،عوام کو12ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔ مئی 2019میں ایک کلوآٹے کی قیمت 39روپے 25پیسے تھی،جو مئی 2020میں 44روپے 25پیسے ہوگئی،یعنی ایک
کلو آٹا 5روپے مہنگا ہوگیاعوام کو 11ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔جون 2019میں آٹے کی قیمت 40روپے تھی،جو جون 2020میں بڑھ کر 51روپے فی کلو ہوگئی،یعنی 11روپے فی کلو مہنگا،جس کے نتیجے میں عوام کو جون کیمہینے میں 25ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے،
جولائی 2019میں ایک کلو آٹے کی قیمت 42روپے تھی،جو لائی 2020میں یہ قیمت 51روپے ہوگئی،یعنی9روپے فی کلو کافرق۔جس کے نتیجے میں عوام کو 20ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔پھر اگست 2019میں ایک کلو آٹے کی قیمت 42روپے فی کلو تھی،جو اگست 2020میں
50روپے 50پیسے ہوگئی،یعنی ایک کلو آٹا 8روپے 50پیسے مہنگاہوگیا۔اور عوام کو 19ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔ پھر ستمبر 2019میں ایک کلو آٹے کی قیمت 43روپے 30پیسے تھی جو ستمبر 2020یعنی گزشتہ ماہ 50روپے 45پیسے تھی،یعنی ایک کلو آٹا 7روپے 15پیسے
مہنگا ہوگیااور عوام کو 16ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔اسی طرح گزشتہ سال اکتوبر میں ایک کلو اٹے کی قیمت 46روپے تھی،جو اس سال بڑھ کر52روپے ہوگئی ہے،یعنی 6روپے سے بھی زیادہ مہنگی اور اکتوبر میں اب تک عوام 13ارب روپے کی اضافی قیمت ادا کرچکی ہیں۔
یعنی گزشتہ سال اکتوبر سے لیکر اب تک عوام205ارب روپے اضافی ادا کرچکی ہے۔اسی طرح حکومت کادعوی ہے کہ 15لاکھ ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے،جس کے بعد گندم کا بحران ختم ہوجائے گا۔مگر صورتحال یہ ہے کہ اگست میں بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ خبر آچکی تھی
کہ پاکستان میں شدید بحران ہےاورپاکستانی حکومت ایک ساتھ 30لاکھ ٹن درآمد کرے گی،جس سے بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں 230ڈالر فی ٹن سے 280ڈالر فی ٹن پر پہنچ گئیں اور اب حکومت 292ڈالر فی ٹن تک گندم خرید رہی ہے۔ ایک ساتھ اتنا بڑا آرڈر لے جانے کی وجہ
سے عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھ گئی، اور اب حکومت کو 1ٹن گندم کی قیمت میں 62ڈالر اضافی ادائیگی کرنی پڑے گی۔اپریل میں پتا چل گیا تھا کہ ملک میں گندم کی پیداوار ہدف سے کم ہوئی ہے،مگر حکومت نے توجہ نہیں دی۔اپریل سے ہی آہستہ آہستہ گندم درآمد کی جاتی توملک کا
زرمبادلہ بچ جاتا۔مصر اور اردن نییہی کیا۔اگر حکومت بروقت فیصلہ کرتی،۔اور آہستہ آہستہ مارکیٹ سے گندم خریدتی تو اسے220 سے 230ڈالر فی ٹن کی گندم ملتی ۔اب یہ 290ڈالر فی ٹن سے بھی اوپر کی پڑرہی ہے۔گزشتہ سال جب پاکستان نے گندم ایکسپورٹ کی تو اس وقت ایک ٹن گندم 210ڈال
ر کی فروخت کی۔اب سال280ڈالر فی ٹن کے حساب سے درآمد کررہا ہے۔یوں تاخیر سے فیصلے کی وجہ سے پاکستان کو5کروڑ ڈالرزسے زائد کی اضافی ادائیگی پاکستان کرچکاہے۔یعنی9ارب روپیکا ملکی خزانے کونقصان فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے پہنچ چکا ہے۔حکومت کو اپنے
دعوے کے مطابق گندم کی قیمت کم رکھنے کیلیے سبسڈی بھی دینی پڑے گی۔کیوں کہ 280ڈالر فی ٹن کی اوسط قیمت پرگندم ملی تو 20کلو گندم کی قیمت 920روپے بنتی ہےاور حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں 840روپے میں 20کلو آٹے کے تھیلے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
یعنی حکومت کو 20کلو کے تھیلیپر 80روپے کی سبسڈی دینی ہوگی،یعنی ایک کلو پر 4روپیکی سبسڈی۔اور 15لاکھ ٹن گندم پر 4روپے کی سبسڈی کا مطلب ہے کہ حکومت اپنے خزانے سے 6ارب روپے کی سبسڈی مزید دے گی۔یعنی 9ارب روپے مہنگی گندم میں ضائع کردیے۔6ارب روپے
کی سبسڈی دینی ہوگی اور قیمتوں کی مد میں اضافے سے جو205ارب روپے کا نقصان ہواوہ الگ ہے، یوں کہ مجموعی طور پر220ارب روپے کا نقصان پہنچے گا۔اس کے علاوہ پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کی تحقیق کے مطابق،مئی میں سامنے آنے والی شوگرکمیشن کی رپورٹ نے بتادیا تھا
کہ ملک میں گنا بمشکل ملکی ضرورت پوری کرسکے گا،مگر اسکے باوجود فوری طور پر چینی امپورٹ نہیں کی گئی۔اب حکومت کا دعوی ہے کہ 55ہزار ٹن چینی امپورٹ ہوگئی ہے،اور مزید 1لاکھ ٹن چینی جلد ہی آجائے گی،جس کے بعد میں چینی کی قیمت میں 15روپے تک کمی آئے گی،یعنی
حکومت 85روپے میں چینی کی فروخت یقینی بنائے گی۔اور سہولت بازارمیں بھی چینی 85روپے فی کلو بیچنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔جو موجود ہ قیمت سے تو 15روپے کم ہے،مگر حکومت کے اپنے قائم کردہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمت مارکیٹ میں شوگر ملرز کا
منافع ،اور تمام ٹیکسز ملا کر 63روپے 13پیسے ہونی چاہیے۔ مگر درامد ہونے کے بعد چینی شوگر کمیشن کے دعوے سے 22روپے زیادہ میں ملے گی ۔روپوں میں ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی پر22روپے کی زائد قیمت کا مطلب ہوگاعوام پر 3ارب30کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا،اسی طرح
حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے مارکیٹ سے مہنگی چینی خرید کرسبسڈی دے کر بیچتی رہی ہے۔یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن کی اپنی فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق دسمبر سے جولائی تک یوٹیلٹی اسٹور کارپویشن نے 2لاکھ 10ہزار ٹن چینی خریدی اور شوگر مل مالکان کویوٹیلٹی اسٹورز
سے سبسڈی کی مد میں 3ارب روپے کا فائدہ پہنچایاگیا۔اسی طرح شوگر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایاتھاکہ چینی کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ہوتا ہے،تو شوگر مل مالکان کو سوا 5ارب کا فائدہ ہوتا ہے،اور پھر مئی میں شوگر کمیشن نے بتایاتھاکہ اب تک شوگر مافیا ۔۔ اس مد میں 100ارب
تک کا فائدہ اٹھاچکا ہے۔اگر اس فارمولے کو سامنے رکھ کر حساب لگایا جائے تو جون کے مہینے میں چینی کی قیمت 90روپے فی کلو تھی تو شوگر مل مالکان کو 13ارب کا مزیدفائدہ پہنچا۔جولائی میں چینی کی قیمت 95روپے فی کلو ہوئی تو شوگر مل مالکان کو 15ارب روپے۔اگست میں چینی
کی قیمت 100روپے فی کلو ہوئی توشوگر مل مالکان کو 17ارب روپے کا فائدہ ہوا۔ جب کہ ستمبر میں چینی کی قیمت 100روپے رہی تو اس مہینے بھی شوگر مل مالکان کو 17ارب روپے کا فائدہ ہوا اور اب تک اکتوبر میں جب کہ چینی کی قیمت 110روپے فی کلو ہے، شوگر مل مالکان کو16ارب
روپے کا فائدہ پہنچ چکا ہے۔ یعنی کمیشن کی رپورٹ آنے سے پہلے تک شوگر مل مالکان کو 100ارب روپے تک فائدہ پہنچا، پھر مئی سے اب تک مزید78ارب روپے کافائدہ پہنچایا جاچکا ہے، یعنی اب تک مہنگی چینی فروخت کرکے شوگر مل مالکان 178ارب روپے زیادہ کما چکے ہیں۔
پھر چینی کی برآمدپر پنجاب حکومت نے 3ارب روپے کی سبسڈی اور دے دی۔اورپھر 3ارب روپے جو چینی کی درآمد کی وجہ سے اضافی دینے پڑرہے ہیں۔ ہرطرف سے قومی خزانے پر الگ بوجھ پڑا۔ عوام کی جیب پر بوجھ پڑا۔وہ صرف چینی کی مد میں تقریبا184ارب روپے ہیں۔ عوام او
ر ملک کے یہ پیسے بروقت اور درست فیصلوں سے بچائے جاسکتے تھے۔ یوں 184ارب روپے چینی کے اور 220ارب روپے گندم کی مدمیں عوام کو نقصان پہنچا۔صرف ان دو پرڈکٹس میں ۔ بدانتظامی کی وجہ سے قوم کوتقریبا404ارب روپیکانقصان اٹھانا پڑا۔اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رقم بڑھ رہی ہے۔