ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

سویلین بالادستی کا ہزاروں میل کا سفر آج سے شروع ہو چکا سندھ پولیس کے احتجاج پر بی بی سی اردو کا تجزیہ

datetime 21  اکتوبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وہ کہتے ہیں ناں کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ پاکستان میں آج کل یہی ہو رہا ہے، بی بی سی اردو نے پاکستان کی  موجودہ صورتحال پر اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ اب بات حزب اختلاف کے حکومت مخالف جلسوں سے ہوتی ہوئی پولیس کے احتجاج تک آ پہنچی ہے۔

جنھیں نہیں پتہ ان کے لیے بتاتے چلیں کہ یہ قصہ شروع مزار قائد سے ہوا۔ جی ہاں کیپٹن صفدر کی جانب سے نعرے بازی پر سندھ پولیس کو شدید سیاسی دبا ئوکا سامنا کرنے کے بعد مقدمہ دائر کرنا پڑا اور اگلی صبح ایک ڈرامائی گرفتاری کی خبریں عام ہوئیں۔منگل کی شام وزیر اعلیٰ سندھ کی پریس کانفرنس میں واضح الزامات لگائے گئے کہ کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ سیاسی عزائم پر مبنی تھا جبکہ بلاول بھٹو نے کہا کہ اس سب کے لیے پولیس افسران پر شدید دبا ئوڈالا گیا۔اس کے بعد پولیس افسران نے ایک فورس کا ثبوت دے کر کسی بھی قسم کے دبا ئوسے انکار کرتے ہوئے ایک ساتھ چھٹی جانے کا فیصلہ کر لیا۔یہی نہیں ایک ایک کر کے پولیس افسران کی چھٹی کی درخواستیں اسی ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔ایک صارف عبدالمجید نے ٹویٹ کی ‘سندھ کی بہادر بیٹی جنھوں نے چینی سفارتخانے پر حملے کو ناکام بنایا ایس ایس پی سوہائے عزیز تالپور نے بھی احتجاجا ً30 دن کی چھٹی کی درخواست دے دی ہے۔

تاہم بعد میں یہ فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ جس کی وجہ آرمی چیف کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے کی یقین دہانی کو قرار دیا گیا۔سندھ پولیس کے مطابق فوجی سربراہ نے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ وہ سندھ پولیس کی عزت بحال کرنے کے معاملے میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کریں گے۔

سندھ پولیس کے ٹوئٹر اکائونٹ سے کہا گیا کہ ‘آئی جی سندھ نے اپنی چھٹی موخر کر دی ہے اور تمام افسران سے کہا ہے کہ وہ سب بھی وسیع تر قومی مفاد میں اپنی چھٹی کی درخواستیں 10 دن کے لیے روک دیں جب تک کہ انکوائری کے نتائج سامنے نہیں آ جاتے۔ اس کے ساتھ یہ بھی

امید ظاہر کی گئی کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ سندھ پولیس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا تاکہ پولیس فورس کا مورال اور انتظامی آزادی آئندہ کے لیے بحال ہو سکے۔اس سے معاملے کے بعد پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے آئی جی سندھ سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ‘میں سندھ پولیس کے ساتھ ہوں کیا آپ لوگ ہیں؟’ جس کے بعد یہی ہیش ٹیگ آئی سٹینڈ ود سندھ پولیس ٹرینڈ کرنے لگا۔ماضی میں بھی شاید پولیس کے بارے میں ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے رہے ہوں گے لیکن تب پولیس کی اچھی یا بری کارکردگی یا کوئی تنازع

زیر بحث آتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ یہ ٹرینڈ پولیس اور عسکری سکیورٹی اداروں کے درمیان واضح اختلاف ظاہر کر رہا ہے۔انسانی حقوق کے کارکن کپل دیو کے خیال میں یہ کسی بڑی تبدیلی کا پیشہ خیمہ ہے۔ سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا ‘سویلین بالادستی کے ہزاروں میل کا سفر آج

سے شروع ہو چکا ہے۔ تمام جمہوری آوازیں واضح طور پر ایک نعرہ لگا رہی ہیں کہ جبری طاقت کو مسترد کرتے ہوئے ہم سندھ پولیس کے ساتھ ہیں۔ صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس کے بڑے چھوٹے افسران دھڑا دھڑ چھٹی کی درخواستیں دے رہے ہیں ،ایسا لگتا ہے پولیس

ایک خاموش ہڑتال کی طرف جا رہی ہے سب جانتے ہیں ہڑتال کس کے خلاف کی جا رہی ہے اب کسی انکوائری کی ضرورت نہیں پھر بھی اس انکوائری کو کل کے دن میں مکمل کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا ۔

تمام سرکاری ملازمین کو آج سے سندھ پولیس کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے تمام غیر قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کرنا چاہیے اور جناح کی جانب سے اپریل سنہ 1948 میں پشاور میں سرکاری ملازمین کو دی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔صحافی مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ اگر

آج ہم نے سندھ پولیس کا ساتھ نہ دیا تو ہمیں مستقبل میں بھی کوئی شکایت کرنے کا حق نہیں۔لیکن سوشل میڈیا پر سبھی لوگ سندھ پولیس کا ساتھ دے رہے ہوں ایسا بھی نہیں۔ کچھ صارفین نے جتایا کہ سندھ پولیس پہلی مرتبہ دبائو کا شکار نہیں ہوئی۔اینکر شفا یوسفزئی کا بھی کہنا تھا کہ اے ڈی خواجہ

کا معاملہ ہو یا سندھ ہائی کورٹ حملے کا یا پھر را ئوانوار کا مقدمہ ہو یا کلیم امام کا مسئلہ۔ سندھ پولیس کی ایک تاریخ ہے کہ وہ استعمال ہوئی۔ایک صارف ثمینہ کا کہنا تھا را انوار بھی اسی سندھ پولیس کا حصہ تھے جنھوں نے 400 لوگوں کو قتل کیا، 190 جعلی پولیس مقابلے کروائے۔

انہیں اس نظام اور پیپلز پارٹی کا برسوں کا تحفظ حاصل رہا۔ اس معاملے پر حکومتی جماعت کے رہنما بھی خاموش نہیں رہے۔ وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر شہباز گل نے بھی سندھ پولیس کو مزار قائد کی توہین سے لے کر غریب ہاریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم یاد کرواتے ہوئے کہا

کہ اس وقت انہیں توہین کیوں محسوس نہیں ہوئی۔شہباز گل کا کہنا تھا اسی پولیس کے چند افسران کی کبھی توہین نہیں ہوئی جب وڈیروں کے کہنے پر یہ غریب ہاریوں کی تذلیل کرتے رہے۔ ان کی تب توہین نہیں ہوئی جب سپریم کورٹ نے اومنی گروپ کے ریکارڈ میں ردوبدل پر پکڑ لیا اور CPO کراچی کے عہدہ سے ہٹا دیا۔۔۔۔ پاکستان کو آج فیصلہ کرنا ہے۔ شاہی خاندانوں کا قانون الگ اور عوام کا قانون الگ رکھنا ہے۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…