اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) انڈونیشیا میں پاکستان کے سابق سفیر میجر جنرل(ر) سید مصطفی انور کی جانب سے 2001-02 میں مبینہ طور پر جکارتہ میں سفارت خانے کی عمارت سستے داموں فروخت کرنے کے الزام پر نیب نے حال ہی میں ان کیخلاف ریفرنس دائر کیا ہے لیکن اس معاملے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔
جنہوں نے سابق سفیر کو بچایا اور دفتر خارجہ کے جس سینئر افسر نے اس غلط حرکت کی نشاندہی کی تھی اسے نشانہ بنایا تھا۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق 2002-03 میںمذکورہ سکینڈل کے حوالے سے خبر شائع کی گئی تھی لیکن سابق سفیر کیخلاف کارروائی کی بجائے جنرل مشرف نے انہیں واپس ٹرانسفر کرتے ہوئے افسر کو معطل کر دیا جس نے دفتر خارجہ کو مبینہ فراڈ کی شکایت کی تھی۔ جنرل مشرف نے نہ صرف اس افسر کو 2007 تک ان کی ریٹائرمنٹ تک او ایس ڈی بنائے رکھا بلکہ میجر جنرل(ر)سید مصطفی انور کو عہدے میں توسیع بھی دی۔ ریٹائرڈ میجر جنرل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مشرف کی اہلیہ کے رشتہ دار ہیں۔ 2003 میں یہ خبرسامنے آئی تھی کہ جو عمارت محض 30 لاکھ ڈالرز میں فروخت کی گئی وہ جکارتہ کے مہنگے ترین علاقے میں تھی۔ اس عمارت میں سفارت خانہ بھی تھا اور سفیر کی رہائش گاہ بھی تھی، جسے سفیر نے دارالحکومت کے کم اہمیت کے حامل علاقے میں وسیع ترین عمارت کی خریداری کیلئے فروخت کر دیا۔ حکومت کے غیر ملکی اثاثہ جات کی فروخت کیلئے طے شدہ قواعد و ضوابط کو بڑی ہی آسانی سے نظرانداز کر دیا گیا جبکہ یہ اثاثہ جات جکارتہ میں ایک مقامی فریق کو فروخت کیے گئے۔
طے شدہ ضابطوں کے مطابق ایک اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دی جانا تھی، مقامی میڈیا میں اشتہار شائع کرانا تھا تاکہ نیلامی کی صورت میں زیادہ سے رقم حاصل کی جا سکے۔ کوئی کمیٹی تشکیل دی گئی اور نہ ہی انڈونیشیائی اخبارات میں اشتہار شائع کیا گیا۔ سفیر کے پاس دفتر خارجہ کی طرف سے عمارت فروخت کرنے کی منظوری بھی نہیں تھی۔ اس کی بجائے، سفیر نے اپنے ماتحت سفارت خانے کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں دو افسر شامل تھے اور ایک نجی فریق سے فروخت کا معاہدہ کیا۔
جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوئے، سفارت خانے کی کمیٹی کے دو افسروں میں سے ایک نے اس معاملے میں دفتر خارجہ کو شکایت کی کہ متنازع معاہدے میں کک بیکس شامل ہیں۔ افسر سے کہا گیا کہ وہ تحریری طور پر شکایت درج کرائیں تاکہ معاہدے کو منسوخ کر ایا جا سکے۔ افسر نے ایسا ہی کیا لیکن ڈیل کینسل نہیں ہوئی۔ اس کی بجائے افسر ڈاکٹر ایس ایم ایچ رضوی کو واپس بلا لیا گیا اور او ایس ڈی بنا دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں اپنے اصل محکمے میں رکھنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں او ایس ڈی لگایا گیا۔
وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک او ایس ڈی رہے۔ بعد میں چند برسوں بعد افسر کا انتقال ہوگیا۔ خبر شائع ہونے کے بعد، معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی نے تصدیق کی کہ جکارتہ میں سرکاری اثاثہ جات کی فروخت کے معاملے میں طے شدہ ضابطوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود سفیر کو چھوڑ دیا گیا۔ تاہم، کک بیکس کے الزامات پر بھی کوئی باضابطہ انکوائری شروع نہیں ہوئی۔ اس کی بجائے دفتر خارجہ کے افسر، جس نے اس مشکوک ڈیل کے متعلق سرکار کو آگاہ کیا تھا، کو مثال بنا کر رکھ دیا گیا۔
2004 میں پرویز مشرف نے میجر جنرل(ر)مصطفی انور حسین کے کنٹریکٹ میں چوتھے سال بھی توسیع کی اور انہیں انڈونیشیا میں سفیر بنائے ر کھا جبکہ اس عہدے کیلئے نامزد بریگیڈیئر (ر)اعجاز شاہ جو اس وقت ملک کے وزیر داخلہ ہیں اور پنجاب کے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ تھے کو عہدہ نہیں دیا گیا۔ اعجاز شاہ کو جکارتہ کیلئے نامزد کیا گیا تھا لیکن بعد میں ان سے کہا گیا کہ وہ انتظار کریں جبکہ مصطفی انور کو ایک سال کی مزید توسیع دی گئی۔ دفتر خارجہ اعجاز شاہ کی تقرر کی انڈونیشیائی حکومت کی منظوری کا انتظار کر رہا تھا لیکن انڈونیشیا کی حکومت کو موجودہ سفیر کی توسیع کا پروانہ بھیج دیا گیا۔
بعد میں 2015 میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے بتایا کہ ڈاکٹر ایس ایم ایچ رضوی کے ساتھ تعصب اور غیر منصفانہ رویہ برتا گیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ درخواست دینے کے باوجود دفتر خارجہ کو تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ حال ہی میں نیب کے دائر کردہ ریفرنس میں بتایا گیا ہے کہ مصطفی انور نے غیر قانونی طور پر سرکاری عمارت فروخت کی اور قومی خزانے کو 13 لاکھ 20 ہزارڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ ریفرنس میں لکھا ہے کہ سفیر نے وزارت خارجہ کی منظوری کے بغیر ہی اخبار میں اشتہار شائع کرایا، انہوں نے یہ اقدام کرکے نیب آرڈیننس کی شق نمبر 9 اے 6 کے تحت اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔