اسلام آباد(آن لائن،مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا، اسے تسلیم کرنے کے لیے میرا ضمیر کبھی راضی نہیں ہوگا کیوں کہ فلسطین کے معاملے پر ہمیں اللہ کو جواب دینا ہے۔ میری ساری زندگی جدوجہد میں گزری ہے تاہم سیاست میں بہت بڑی جدوجہد کی۔
کیونکہ پاکستان میں دو پارٹی سسٹم چل رہا تھا جس کو توڑنا بہت مشکل تھا ،کتنے لوگوں نے سیاسی پارٹیاں بنائیںمگر جب مشکل وقت آیا تو سب ہار گئے ،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں نے برے وقت سے ہمیشہ سیکھا ،یہ جو میرے حالیہ دو سال جو گزرے ہیں یہ سب سے بڑی جدوجہد تھی ، چیلنجز بہت تھے معاشی حالات خراب تھے ،معیشت تباہ ہو چکی تھی ،قرضے واپس کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے ،ادارے خسارے میں تھے ،جدھر دیکھو تو ہر طرف بربادی نظر آ رہی تھی ،پی آئی اے ،بجلی سیکٹر جس ادارے کو بھی دیکھتا تھا ہر طرف تباہی ہی نظر آتی تھی، ان دو سالوں میں پہلے میں نے سمجھا کہ چیلنجز کس طرح درپیش ہیں ۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلی کوشش میں نے ملک کا رخ مدینہ کی ریاست اور خلوص ریاست بنانے کی طرف بدلہ ہے ،ہم نے سارے سکولوں میں نصاب کے اندر حضور اکرمۖ کی زندگی کو شامل کیا تاکہ ہمارے بچے ان کے بارے میں اچھی طرح جان سکیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اوپر جانا ہے تو ہمیں حضور ۖ اور ریاست مدینہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہوگا ،ہم نے یہ طے کرنا ہے کہ ہم نے غریبوں کو کیسے اوپر لے جانا ہے اور اوپر اٹھانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے احساس پروگرام اسی وجہ سے لانچ کیا۔
ہم نے کنسٹرکشن کے اوپر زور دیا کیونکہ اس سے غریبوں کو روزگار ملتا ہے اور غریب خوشحال ہوتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے یہ تھا کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ ہر کام کروا سکتے ہیں ،پہلے بڑے کنسٹرکشن والے بزنس مین کو کام ملتا تھا مگر آج چھوٹے طبقے کو بھی کام ملتا ہے ،اسی طرح یہ بھی دبی ہوئی ہوئی تھی جو اب نہیں ہے ۔ ہماری ساری کوشش ہے کہ ایلیٹ طبقے کی بجائے متوسط طبقے کو سہولیات پہنچائی جائیں تاکہ چھوٹے طبقے کو اوپر اٹھایا جا سکے ۔
جب ہم نے ایلیٹ طبقے پر ہاتھ ڈالا تو انہوں نے شور مچایا کہ ”مجھے کیوں نکالا ”کیوں کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں ،اسی وجہ سے یہ شور مچایا گیا اور اب یہ طبقہ حکومت کو گرانے کی کوشش میں ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیز نے ہماری بات سمجھ لی ہے اور اب میں ان کو دعوت بھی دونگا کہ وہ مزید معاہدے کرے، پہلے بجلی کے معاہدے بہت مہنگے کیے گئے تھے اور بجلی مہنگی ہو تو سب سے زیادہ نقصان انڈسٹریز کو ہوتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے انرجی کے مسئلے جس طرح پھنسے ہوئے ہیں ہمارے لئے رات کو سونا بھی مشکل ہو گیا ہے ہم اس کے حل کی تلاش میں ہے،اس حوالے سے پورا پلان ہم جلد سامنے لائیں گے ،بجلی کے معاہدے ایسے کئیگئے کہ آپ بجلی نہیں بھی لیتے تو بھی پیسے دینے پڑتے تھے۔عمران خان نے مزید کہا کہ ہم بڑے عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں جب ہم بجلی کی قیمت بڑھاتے ہیں تو لوگ پس جاتے ہیں اگر نہیں بڑھاتے تو قرضے بڑھ جاتے ہیں ۔
جب تک ہماری انڈسٹریز نہیں چلتیں تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے مجھے امید ہے کہ جو ہم نے بجلی سیکٹر میں جو معاہدے کیے ہیں اس سے کافی بہتری آئے گی ۔وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ الحمداللہ ہم کرونا سے کافی حد تک نکل گئے ہیں ،تاہم جب یہ وائرس پاکستان میں آیا تو ہم نے بروقت اقدامات کئے تاہم ہم مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے کیونکہ ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ،مگر میرے اس فیصلے پر خوب تنقید کی گئی کہ میں عوام کو مارنا چاہتا ہوں مگر میرا مؤقف یہی تھا کہ مکمل لاک ڈاؤن کیا تو لوگ بھوکے مر جائیں گے یہی وجہ ہے کہ میں نے کرفیو نہیں لگایا ۔
سندھ میں شروع میں مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا مگر پھر اسے نرم کیا گیا ۔میں نے ہمیشہ سمارٹ لاک ڈاؤن کا کہا کیوں کہ غریب طبقہ کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ،جہاں کرونا زیادہ تھا صرف ان علاقوں کو لاک کیا ،پاکستان آج دنیا میں اپنی پالیسی کی وجہ سے ٹاپ پر ہے بل گیٹ بھی مجھے فون کر کے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کیسے کرونا پر قابو پایا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چینی مہنگی ہونے کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ ذخیرہ اندوز پیسہ بنا رہے ہیں ملک میں ہر جگہ کارٹل بنے ہوئے ہیں ۔
چینی کی قیمت جب بڑی تو ہم نے فرانزک انکوائری کرائی جس میں سامنے آیا کہ بروکر شوگرملز والوں کے فرنٹ مین نکلے ،گنے والے کسان کی کٹوتی ہوتی ہے ،یہ تمام چیزیں اس میں واضح ہوئی ہیں ۔شوگر ملز والے ہمیں دھمکیاں دیتے تھے اور انہوں نے واجد ضیا ء کو بھی دھمکیاں دیں،قیمتیں مصنوعی طریقے سے اوپر جاتی ہیں ۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ شوگر انکوائری رپورٹ پر شوگر ملز والے حکم امتناعی لے آئے ،ہم نے تو پوری کوشش کی ہے کہ اس مصنوعی بحران کے پیچھے جو بھی ہے اس کو بے نقاب کریں ۔
مگر مافیا متحد ہوکر دباؤ ڈالتا ہے مگر نئے پاکستان کا سسٹم کرپٹ لوگوں کو پکڑے گا ،اور جب یہ پکڑے جائیں تو بلیک میل کرتے ہیں عدالتوں میں جاتے ہیں اور سٹے لے لیتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ سابق دور میں اس مافیاز پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا تھا مگر ہم نے ان پر ہاتھ ڈال کر دکھایا ،جب تک ملک سے مافیاز کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ملک ترقی نہیں کرسکتا ۔انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ میں کسی مافیا کا حصہ نہیں ہوں میں ان کو پکڑوں گا چھوڑوں گا نہیں۔
میری زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے اس مافیاز کا خاتمہ کرنا اور ملک کو خوشخال بنانا ہے، غریبوں کو سہولیات دینا اور کمزور طبقے کو اوپر لے جانا۔ انہوں نے کہا کہ میری جدوجہد میں جہانگیر ترین وہ واحد شخص تھے جنہوں نے بہت محنت کی، بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم نے چینی رپورٹ بنائی تو اس میں جہانگیر ترین کی ایک مل بھی آئی اور یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ میں باقی تمام شوگر ملز کی رپورٹ بنائوں اور جہانگیر ترین کو چھوڑ دوں کیونکہ یہ انصاف نہ ہوتا اگر میں اس کی مل کو چھوڑ دیتا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا کیونکہ جہانگیر ترین میرا بہترین دوست ہے یہ میری زندگی کا بہت بڑا اور مشکل فیصلہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ لیڈر کو صادق اور امین ہونا چاہیے۔
اگر میں جہانگیر ترین کو چھوڑ دیتا تو عوام کا لیڈر سے اعتماد اٹھ جاتا تاہم جہانگیر ترین نے ابھی کوئی جرم نہیں کیا بلکہ چند اور لوگ اس میں ملوث تھے جو جہانگیر ترین کی ملز میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل دیکھتا ہوں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ ہم کراچی کی بہتری کے لئے جو ہو سکا کریں گے کیونکہ کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی اور معاشی گڑھ ہے۔ کراچی میں ماضی میں بدامنی جو الطاف حسین لے کر آیا تھا اگر وہ نہ ہوتی تو پاکستان کا دبئی کراچی ہوتا۔ متحدہ کے بانی نے کراچی میں بڑی تباہی مچائی۔ کراچی میں میٹروپولیٹن سسٹم ہونا چاہیے کیونکہ کراچی کے حالات اب بھی خراب ہیں۔ ہم کراچی کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے والے ہیں اور کراچی کے لئے جو کچھ کر سکے وہ اب ہم کریں گے۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں لوکل گورنمنٹ سسٹم نہ ہونا ہے۔ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے پاس اختیارات ہیں اگر وفاق مداخلت کرے تو وہ شور مچاتے ہیں۔ کراچی کے نقصان سے پاکستان کا بہت نقصان ہوا ہے