اسلام آباد (آن لائن)نیب عدالتوں سے متعلق کیس میں نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں موقف اپنایا گیا ہے کہ کرپشن مقدمات پر 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں، کرپشن مقدمات میں 50,50 گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے،موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کیلئے ناکافی ہیں۔
حکومت کو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے،کئی بار حکومت کو بتایا کہ مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی،لاہور کراچی راولپنڈی اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے،ہر احتساب عدالت اوسط 50 مقدمات سن رہی ہے۔نیب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر سختی سے عمل کرتی ہیں،احتساب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر عمل نہ کرنے کا اختیار استعمال نہیں کرتیں ،ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلی عدلیہ کے حکم امتناع بھی تاخیر کی وجہ ہیں ،عدالتیں ضمانت کیلئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتیں،ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے،بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے،عدالتوں کی جانب سے ‘‘سیاسی شخصیات’’ کے لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے،غلط تشریح کے باعث سیاسی شخصیات کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا،رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے،رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے،رپورٹ میں نیب کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہو سکتے۔احتساب عدالتوں کیخلاف اپیلیں سننے کیلئے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔