اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی بازیابی کے لئے دائر درخواست پر ہدایات کے ساتھ نمٹا دی۔ بدھ کو کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ یہ الارمنگ ہے اور اسکو برداشت نہیں کیا جا سکتا، عام آدمی سے بھی وفاقی دارالحکومت میں یہ رویہ نہیں رکھا جا سکتا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ جس نے بھی یہ کیا ہے وہ باقیوں کو ڈرانا چاہتا ہے، پولیس کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت کو بھی آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانا چاہیے، کسی کی اتنی ہمت ہے کہ جس نے پولیس کی وردی میں یہ کام کیا۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ تمام گاڑیوں کے اوپر بھی پولیس لائٹس لگی ہوئی تھی، رول آف لاء نہیں ہو گا تو یہاں کچھ نہیں ہو گا بلکہ صرف افراتفری ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ صحافی کے خلاف کسی بھی جرم پر دہشتگردی کی دفعات لگتی ہیں، کیا پولیس نے ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی ہیں۔ڈی آئی جی پولیس وقار الدین سید نے کہاکہ پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات کیوں نہیں شامل کیں۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ عوام کو کیا تاثر ملے گا کہ پولیس کی وردی میں لوگ دندناتے پھر رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ پولیس کی گاڑیاں اور وردی استعمال کرے۔ سابق صدر جے پی ایف یو جے افضل بٹ نے کہاکہ اگر عدالت بروقت نوٹس نہ لیتی تو شاید آج ہم سڑکوں پر بیٹھے ہوتے۔ وکیل جہانگیر جدون نے کہاکہ پولیس تفتیش کر کے عدالت کو بتائے کہ اس سارے عمل کے پیچھے کون تھا۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اسلام آباد میں یہ عمل ہوا، سی سی ٹی وی آگئی ہے یونیفارم دیکھا جا سکتا ہے یہ پولیس کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔